Tag Archives: kpk

Mystical Singer Sain Zahoor in Peshawar

شہزادہ فہد ۔

This slideshow requires JavaScript.

صوفی وہ ہے جو قلب کی صفائی کے ساتھ صوف پوش (سادہ لباس) ہو اور نفسانی خواہو، صوفی موسیقی کا تعلق بھی صوفیاء کرام سے بتایا جاتا ہے جسے رومی ،بلھے شاہ اور امیر خسرو جیسے صوفی شاعروں سے متاثر ہو کر تخلیق کیا گیا ہے، قوالی صوفی موسیقی کی سب سے معروف صورت ہے جس کا تعلق برصغیر سے ہے، نیز یہ موسیقی ترکی،مراکش اور افغانستان جیسے ممالک میں وجود رکھتی ہے، پاکستان میں عارفانہ کلام کے گلوکاروں کو دنیا بھر میں ایک منفرد مقام حاصل ہے ، ان ہی میں سے ایک مقبول و معروف نام سائیں ظہور جو کہ پاکستان کے شہر اوکاڑہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک نامور بین الاقوامی شہرت یافتہ صوفی گلوکار ہیں، انہوں نے اپنی زندگی کا زیادہ وقت درباروں اور درگاہوں پر گزارا ہے۔ 2006ءسے پہلے ان کا کوئی کلام ریکارڈ نہیں ہوا تھا تاہم عوامی گلوکار ہونے کے وجہ سے بی بی سی ورلڈ میوزک ایوارڈ کے لئے نامزد بھی ہوئے تھے، سائیں ان کا نام نہیں بلکہ یہ سندھی قوم کا ایک لقب ہے ، سائیں ظہور ساہیوال ڈویژن کے ضلع اوکا ڑہ میں 1937ءمیں پیدا ہو ئے ، وہ اپنے گھرانے میں سب سے چھوٹے ہیں انھوں نے پانچ سال کی عمر سے ہی گانا شروع کردیا تھا ، دس سال کی عمر میں انھوں نے گھر کو خیر آباد کہہ کر دربار اور خانقاہوں کو اپنا مسکن بنالیا ، 2006 ءمیں ان کا پہلا مجموعہ کلام آوازیں کے نام سے منظر عام پر آیا ، 2007 ءمیں انھوں نے ایک پاکستانی فلم ’ ’ خدا کے لئے“گانا گایا جو بھی بے حد مقبول ہوا ، انھوں نے ایک برطانوی فلم” ویسٹ از ویسٹ “ کےلئے گانا گانے کے ساتھ ساتھ اس فلم میں اداکاری بھی کی، خیبر پختونخوا میں صوفی ازم سے لگاو رکھنے والے افراد کے لئے نشترہال پشاور میں محکمہ کلچر و ثقافت کے زیر اہتمام بین الاقومی شہرت یافتہ صو فی گلوکار سائیں ظہور کی شاندار روحانیت اور فقر پر مبنی کلام کے محفل کا انعقاد کیا گیا جس میں بڑی تعداد میں مرد و خواتین نے شرکت کی اس موقع پر سیکرٹری محکمہ سیاحت وثقافت، آرکیالوجی ،میوزیم اور امور نوجوانان محمد طارق، ڈائریکٹر کلچر اجمل خان، ڈائریکٹر آرکیالوجی ڈاکٹر عبدالصمد، ایس ایس پی ٹریفک صادق بلوچ سمیت مختلف فیمیلز، خواتین اور دیگر اہم شخصیات بھی موجود تھیں اور دیگر اہم شخصیات نے شرکت کی ، تقریب میں کمپئرنگ کے فرائض معروف آرٹسٹ ارشد حسین اور نمرہ خان نے سر انجام دئیے،صوفی شاعر بابا بلے کے کلام کو آپنی جا دوئی آواز میں گانے پر محفل میں موجود افراد نے خوب سراہا ، دو گھنٹوں سے زائد کی پرفارمنس کے دوران گلوکار سائیں ظہور نے میرا عشق بھی توں، تیرے عشق نے نچایا چل چھیاں چھیاں ، لال میری اور دیگر صوفیانہ کلام پیش کئے ، بین الاقوامی شہرت یافتہ گلوکار سائیں ظہور نے اس موقع پر کہا کہ پشاور آکر یہاں کے لوگوں کا پیار اور مہمان نوازی نے بہت متاثر کیا جس کو ہمیشہ یاد رکھوں گا اور اگر موقع ملا زندگی میں تو دوبارہ بھی پشاور میں آکر پرفارم کرونگا ، انہوں نے کہاکہ اپنی زندگی میں زیادہ تر صوفیانہ کلام پیش کئے کیونکہ مجھے شروع سے صوفیانہ کلام سے لگاﺅ رہا ہے ،سیکرٹری کلچر و ٹوررازم طا رق خان کا کہنا تھا کہ سائیں ظہور کو پشاور بلانے اور یہاں پر پروگرام کے انعقاد کا مقصد صوبہ کی عوام کو تفریحی سہولیات فراہم کرنا ہے اور ساتھ ہی صوبائی ثقافت کی رونمائی کرنا بھی ہے ان کا کہنا تھا کہ پشاورمیں صوفی گلوکاری سے لگاو رکھنے والے سائیں ظہور کو پنجاب جا کر سن پاتے تھے یا پھر ٹی وی اور سوشل میڈیا پر دیکھنا اور سننا نصیب ہوتا تھا ، سائیں ظہور کا شمار پاکستان بلکہ دنیا کے نامور موسیقارمیں کیا جاتا ہے انہوں نے اپنی زندگی میں زیادہ ترصوفیانہ کلام پیش کئے اور 2006میں بی بی سی وائس آف ایئر کا ایوارڈ بھی اپنے نام کیا، سائیں ظہور کا تعلق صوبہ پنجاب کے ضلع اکاڑہ سے ہے انہوں نے پانچ سال کی عمر میں موسیقی کا آغاز کیا ، سائیں ظہور کی2گھنٹوں سے زائد براہ راست پرفارمنس پر شہری جھوم اٹھے ، خیبر پختونخوا میں صوفیانہ کلام کے فروغ کےلئے اٹھائے گئے پہلے قدم کے مثبت نتائج آنا شروع ہو جا ئینگے ، پنجاب سے تعلق رکھنے والے معروف صوفی گلوکار کی پشاور آمد سے عارفانہ کلام کے روجحان کو فروغ ملے گا ، پاکستان کے دیگر صوبوں کے حکام کو بلا تفریق عارفانہ کلام کے گلوکاروں کو پروموٹ کرنے کے لئے اس قسم کی محافل کا انعقاد کرنا ہو گا

Pushto Film review 2016

شہزادہ فہد ۔

2016ء پشتو فلم انڈسٹری بحران کا شکار رہی ‘صرف گیارہ فلمیں ریلیز ہوئیں
گزشتہ سال سنیما انڈسٹری شدید بحران سے دوچار رہی ‘ پشتو فلم کا بزنس صرف عید تک محدود ہوکر رہ گیا ہے‘ سنیما کلچر کا خاتمہ مالکان شدید پریشان
پاکستان انڈیا کشیدگی کے باعث ملک بھر میں پاکستانی فلمیں اپنی جگہ بنا سکتی تھیں تاہم بہترین معیار اور اعلیٰ سکرپٹ کے فقدان نے یہ مو قع بھی گوا دیا ہے ،

نامناسب سہولیات اور غیر منافع بخش ہو نے کے باوجود پشتو فلم سازی جاری ہے پاکستان کی شو بز انڈسٹری میں خاص اہمیت رکھنے والی پشتو فلم انڈسٹری طویل عرصہ سے بحران کا شکا ر ہے، سینما کلچر میں کمی اور فلم سنسر بورڈ نہ ہو نے سے فلمی صنعت سے وابسطہ افراد دیگر کا روبارکےلئے سرگرداں ہیں ، پاکستان انڈیا کشیدگی کے باعث ملک بھر میں پشتوفلمیں اپنی جگہ بنا سکتی تھیں تاہم معیار اور اعلیٰ سکرپٹ کے فقدان نے یہ مو قع بھی گوا دیا ہے ، فلمی صنعت سے وابسطہ افراد کا کہنا ہے کہ پشتو فلم انڈسٹری کی زوال پذیر ی کی بڑی وجہ نئے ڈائریکٹرز،پروڈیوسرز،کہانی نویس ،سرمایہ کاروںسمیت نئے چہروں کے نہ آنے اورجدیدٹیکنالوجی سے استفادہ حاصل نہ کرناہے،جب کہ فلمیں بنانے کے حوالے سے ہی تیس سالہ پرانی سوچ اپنائی جاتی ہے، اسی طرح حکومتی سردمہری بھی فلم انڈسٹری کی تباہی کی ایک وجہ بھی ہے، موجودہ دورمیں پشتو فلم انڈسٹری نے اس صنعت کوسہارادے رکھاہے،گزشتہ پندرہ سال سے پشتو فلم انڈسٹری ترقی کی جانب گامزن ہے یایوں بھی کہا جاسکتاہے کہ پوری فلم انڈسٹری کوپشتوفلموں نے سہارادے رکھاہے جس کے دم قدم سے سینکڑوں خاندانوں کے گھروں کے چولہے گرم ہیں، لیکن گزشتہ سال کی صورت حال نے پشتو فلموں کے ہدایت کاروں کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے ،سال میں چندایک فلمیں انڈسٹری ہٹ ہو تی ہیں ،اگر یہی حالات رہے اور ہدایت کار ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کردھرے بیٹھ گئے توپشتو فلم انڈسٹری کا نام ونشان مٹنے کے ساتھ سینکڑوں خاندان بھی فاقے کرنے پر مجبورہوجاہیں گے،یہ ایک حقیقت ہے کہ پشتو فلموں کے شائقین چاروں صوبوں کے علاوہ پڑوسی ملک افغانستان سمیت دنیاکے کونے کونے میں موجودہیںاور لوگوں کی ایک بڑی تعداد پشتو فلموں کی منتظر ہو تی ہے ،2016ءپشتو فلموں کیلئے بزنس کے لحاظ سے کافی برا ثابت ہوا سال بھر میں گیارہ پشتو فلمیں سنیماﺅں کی زینت بنیں گزشتہ سال پشتو فلم انڈسٹری کیلئے بحران کا سال ثابت ہوا او ر سنیما انڈسٹری زوال پذیر رہی گزشتہ سال پشتو فلموںکے معروف ہدایتکار ارشد خان کی تین پشتو فلمیں لیونئی پختون ،راجہ اور بدمعاشی بہ منے ،نوجوان ہدایتکار شاہد عثمان کی تین فلمیں جشن ،گندہ گیری نہ منم اور غلام ،ہدایتکار حاجی نادر خان کی دو پشتو فلمیں محبت کار د لیونئی دے ،خیر دے یار پہ نشہ کے دے ،ہدایتکار اور لکھاری امجد نوید کی ایک پشتو فلم نادان اور نوجوان ہدایتکار سید منتظم شاہ کی پشتو فلم زہ پاگل یم اور ہدایتکار ولکھاری سعید تہکالے کی ایک پشتو فلم بدمعاشی نہ منم ریلیز ہوئی تاہم 2016ءپشتو فلموں او ر انڈسٹری کیلئے اچھا ثابت نہیں ہوا اور پشتو فلمیں شدید بحران کا شکار رہیں‘ سنیما انڈسٹری زوال کی طرف گامزن ہوئی ‘پشتو فلموں کے معروف ڈائریکٹر ارشد خان ،شاہد عثمان نے بتایا کہ گزشتہ سال پشتو فلموں کیلئے بزنس کے لحاظ سے کافی برا سال ثابت ہوا اور سنیما انڈسٹری مزید زوال پذیر ہے اور فلموں کا بزنس صرف عید تک محدود ہوگیا ہے انہوں نے کہا کہ فلموں کا بزنس صرف پشاور میں رہ گیا ہے صوبے کے دیگر اضلاع میں سنیما نہ ہونے کی وجہ سے فلم انڈسٹری زوال پذیر ہے حکومت کو چاہیے کہ وہ صوبے کے دیگر اضلاع میں سینماہال کے قیام کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرے بصورت دیگر رہی سہی پشتو فلم انڈسٹری بھی بندہوجائے گی اور سنیما مالکان اپنے سنیماﺅں کو شاپنگ مالز میں تبدیل کرنے پر مجبور ہوں گے ، دہشت گردی سے متاثر صوبے میں جہاں شہریوں کو تفریحی مواقع میسر نہیں ہیں وہاں شہریوں میں ذہنی تنا وع بڑھ رہا ہے حکومت کی جانب سے سینما کلچر کے فروغ کےلئے اقدامات نہ ہو نے سے شہریوں میں ما یوسی پھیل رہی ہے، چند دھا ئی قبل پشاور میں فیملی کے ہمراہ فلم دیکھنے کا رواج تھا جو کہ قصہ پا رینہ بن چکا ہے صوبائی دالحکومت پشار میں سینما کلچر آخری ہچکولے لے رہا ہے اس وقت پشاور میں گنتی کے چند سینما فعال ہیں جن میں سینما روڈ پر پکچر ہا وس اور تصویر محل ، سویکارنو چوک میں صابرینہ اور ارشد سینما ، جبکہ کینٹ میں کیپٹل سینما شامل ہیں،کچھ عرصہ قبل ہی سینما روڈ میں ناولٹی سینما ، فلک سیر پشاور کینٹ ، فردوس شبستان سینما ، میڑو سینما کو ختم کرکے بڑے بڑے پلازوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے جبکہ گلبہار میں واقع عشرت سینما کئی سالوں سے بند پڑی ہے پشاور میں باقی رہ جانے والے سینما وں کی حالت بھی انتہا ئی خستہ ہے ، صوبائی دارلحکومت سیمت صوبے کے دیگر اضلاع میں بھی یہی حال ہے کو ہا ٹ ، بنوں ، ڈیرہ اسماعیل خان ، کو ہاٹ ، نو شہرہ ، اور مردان میں تیزی سے سینما گھروں کو پلا زوں اور کمر شل سرگرمیوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے ،صوبا ئی حکومت پشاور میں سینما کلچر کے فروغ کےلئے عملی اقدامات اٹھائے تاکہ دہشت گردی سے متاثر شہریوں کو سستی تفریح کے مواقع میسر ہوں۔

Adventure tourism in kpk

شہزادہ فہد

جان جوکھوںمیں ڈالنا ، پر ہمت مہم بازی اورجان بازی کا کام کر نا ایڈونچر کہلا تا ہے دنیا بھر میں ایڈونچر ٹورزیم تیزی سے مقبول ہو رہا ہے، کچھ نیا کرنے کی کو شش میں انسان پہا ڑیوں کی چھٹانوں پر گمند ڈالتے ہو ئے اور سمند وں کی گہرایوں میں سرگراں ہے ، مختف چینلز میں دن رات ایڈونچر کے پروگرامات دیکھائے جا رہے ہیں جن کو دیکھنے والے کی تعداد لاکھوں سے تجاوز کر چکی ہے ، اسی طر ح ہوا میں اڑان بھر کا شوق ہر انسان کے دل ہوتا ہے، آسمان پر اڑتا پرندہ دیکھ کر انسان کے دل میں خواہش پیدا ہو تی ہے کہ کاش وہ بھی اڑ سکتا ، بچپن میں پریوں کی کہانی سننے کی وجہ سے دل میں ایک خواہش سی پیدا ہو تی ہے، بغیر کسی سہا رے اڑنے کا ارمان پورا ناممکن ہے لیکن ہمارے ٹیکنالوجی نے ہمیں اس قابل بنا دیا ہے کہ مصنوعی پروں سے ہم ہوا میں اڑ سکتے ہیں، یہ تجربہ انتہائی پر لطف اور ایڈونچر سے بھرپور ہوتا ہے، ملازمت، پڑھائی،کا روبار کے دوران ذہنی پژمردگی دور کرنے کےلئے وقفہ ضروری ہوتا ہے اور ذہنی آسودگی کےلئے سپورٹس اور ایڈونچر سے بہترین کوئی چیز نہیں ہے ، خیبر پختونخوا حیسن وادیوں کی پر مشتمل ہے جہاں فلک بوس پہاڑ ، گہر ی جھیلیں ، سبزہ زار اور کھلے میدان ہر خطے سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنی طر ف کھنچ لا تے ہیں ، خیبر پختونخوا حکومت نے صوبے میں رہنے والوں اور پاکستان سیمت دنیا بھر سیاحوں کو راغب کر نے کےلئے نت نئے منصو بے پیش کر نے کےلئے کو شاں ہے،تاکہ پاکستان اوردنیا بھرمیں صوبے کا ایک مثبت پہلو سامنے آئے ، اسی سلسلے میں صوبائی حکو مت کی جانب سے ایڈونچر ٹورریم کے فروغ کےلئے پروگرامات ترتیب دئیے گئے ہیں جس میں صوبے کی تاریخ میں پہلی بار پیراگلاڈنگ اور رافٹنگ( کشتی رانی ) کے مقابلے قابل ذکر ہیں، محکمہ ٹورریم ، تھرل سیکر اور ایڈونچر کلب اور ایڈونچر ایج کلب خیبر پختونخوا میں اس طرح کے مواقع فراہم کرنے کےلئے بہت سر گرم ہیں ،نومبر کے آغاز پر کوڑا خٹک کے قریب مصر ی بانڈہ میں پراگلاڈنیگ کا اہتمام کیا گیا جس میں ایک خاتون بے نظیر اعوان سمیت 20 نوجوانوں نے پیراگلائیڈنگ کی،اس موقع پر سیکرٹری محکمہ سیاحت ، کھیل و ثقافت ، میوزیم اور امور نوجوانان طارق خان مہمان خصوصی تھے ، ان کے ہمراہ تھرل سیکرز کلب کے صاحبزادہ انیس اور دیگر اہم شخصیات بھی موجود تھیں ، صوبہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سرکاری سطح پر ٹورازم کارپوریشن خیبرپختونخوا کی جانب سے عوام کو پیراگلائیڈنگ کی شاندار ایڈونچر سپورٹس کی سہولت فراہم کی گئی جسے آنے والے نوجوان شرکاءنے خوب سراہا،جس کا مقصد صوبہ کے نوجوانوں کو ایڈونچر سپورٹس اور مصری بانڈہ کے مقام پر سیاحت کو فروغ دینا تھا ، اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے سیکرٹری طارق خان نے کہاکہ پیراگلائیڈنگ ایونٹ کے انعقاد کا مقصد صوبہ میں ایڈونچر سپورٹس اور سیاحت کو فروغ دینا ہے پیراگلائیڈنگ کے مزید 4ایونٹس اسی مقام پر دوماہ کے دوران منعقدکئے جائینگے تاکہ ان مقامات پرسیاحت فروغ پا سکے اور ان مقامات کو ایڈونچر ٹورازم کیلئے فروغ دیکر ترقی دی جائے، تھرل سیکرز کلب کے صاحبزادہ انیس کا کہنا تھا کہ مصری بانڈہ کا مقام ایک سال کی طویل محنت کے بعد میسر ہوا یہ جی ٹی روڈ اور موٹر وے سے 2سے 3کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور یہاں پیراگلائیڈنگ باآسانی کی جاسکتی ہے اس مقام پر اب سارا سال پیراگلائیڈنگ کی جا سکے گی اور ہماری کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ نوجوان اس جانب راغب ہوں ،پیراگلائیڈنگ کیلئے ایک روز قبل گراﺅنڈ پریکٹس دی جاتی ہے تاکہ پیراگلائیڈر ٹریننگ کے بعد پیراگلائیڈنگ کر سکے ، اس وقت پیراچناہی(کشمیر) کے علاقہ خیبر پختونخوا میں بیرمگ لوشت(چترال) اور کاکول (ایبٹ آباد) کے مقامات موزوں ہے جہاں بہترین پیراگلائیڈنگ کی جاسکتی ہے ، مصری بانڈہ سطح سمندر سے 100 سے 150میٹر بلندی پر ہے جہاں پیراگلائیڈنگ کرائی گئی ، اس موقع پر ٹورازم ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے 2 سولو فلائٹس کرائی گئیںاور باقی فلائٹس پیراگلائیڈر کو خود کرنے کی اجازت تھی،ٹوورازم کارپوریشن نے اس موقع پر کھانے پینے سمیت ٹرانسپورٹ ، فرسٹ ایڈجو کہ ریسکیو 1122اور دیگرسہولیات فراہم کیں،پیراگلائیڈنگ کا دوسرا ایونٹ ایونٹس 19 اور 20نومبرکو منعقد ہوئے جبکہ تیسرا ایونٹ 3، 4دسمبر، چوتھا ایونٹ16، 17دسمبر جبکہ آخری ایونٹ 30 ،31دسمبر بروز ہفتہ اتوار کو منعقد کئے جائےنگے۔ اسی طرح دریا کی لہروں کو چیرنا اور کھلے عام اسے چیلنج کر نے کےلئے تیزی ترین پانی میں رافٹنگ کی جا تی ہے ، جو کہ یقینا ایک مشکل کام ہے جو کہ محکمہ سیا حت نے بڑا آسان بنا دیا،خیبر پختونخوا میں کشتی رانی کے فروغ اور نوجوان نسل کو ایڈونچر ٹورازم کی سہولیات فراہم کرنے کیلئے دریا کابل کے مقام پر” رافٹنگ ایونٹ“ کا انعقاد کیا گیا جس میں پشاور اور ایگر اضلا ع سے خواتین سیمت درجنوں افراد نے شرکت کی ، 8 کلو میٹر کے طویل فاصلے مسافت طے کی لطف اندوز ہو ئے اس دوران ایک دوسرے سے سبقت لینے کےلئے نوجوان آپس میں ریسیں لگاتے نظر آئے ،کارپوریشن خیبرپختونخوا کے زیراہتمام جہانگیرہ کے مقام پر منعقدہ رافٹنگ کے ایونٹ کے انعقاد کیا گیا جس میں سیکرٹری محکمہ سیاحت و کھیل محمد طارق ، ڈپٹی سیکرٹری عادل صافی، ڈپٹی کمشنر نوشہرہ سکندر ذیشان ، ایڈونچر ایج کلب کے ڈائریکٹر خالد خلیل سمیت درجنوں افراد نے شرکت کی، حکام کا کہنا تھا کہ رافٹنگ (کشتی رانی ) کے ایونٹ کے انعقاد کا مقصد نوجوانوں کو تفریحی سہولیات فراہم کرنا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ نوجوان ایڈونچر ٹورازم سے مستفید ہوسکیں ،رافٹنگ میں شریک خواتین کا کہنا تھا کہ رافٹنگ کرنا شوق ہے اور ٹورازم کارپوریشن کی جانب سے یہ سہولیت فراہم کرنا صوبہ کی عوام کیلئے اچھا اقدام ہے ،اس سے انعقاد سے مزید خواتین بھی ایڈونچر ٹورازم کی جانب سے راغب ہونگی، ٹورازم کارپوریشن خیبرپختونخوا کے زیراہتمام رافٹنگ کے اگلے ایونٹ 11 اور 25 دسمبر کو اسی مقام پر منعقد کئے جا ئینگے، خیبر پختونخوا کے حالات بہت بدل گئے ہیں یہاں پر ماضی کے مقابلے ماحول بہت زیادہ سازگارہے، حکومت کی سرپرستی میں اس قسم کی سرگرمیاں منعقد کی جارہی ہیں جن میں خواتین کو خصوصی طور پر مواقع دیئے جا رہے ہیں ،

Religion Tourism

This slideshow requires JavaScript.

شہزادہ فہد

مذہبی سیاحت کافروغ
 تاریخ میں پہلی امریکی سیکھ برادری کا دورہ پشاور میوزیم

مذہبی ساحیت سیا حت کی قدیم ترین شکلوں میں سے ایک ہے ، انسان کی دنیا میں آمد سے ہی مذہی سیاحت کا آغاز ہو ا اور انسان نے اپنی مذہبی مقدس مقامات کی طر ف پیش قدمی کی اسی وجہ سے مقدس مقامات کے حامل شہروں نے معاشی ترقی کی ہے ، پوری دنیا میں مذہبی سیا حت کے فروغ کےلئے مقدس مقامات پر زائرین کو متوجہ کر نے کےلئے اقداما ت کئے جا رہے ہیں جس سے کثیر رزمبادلہ حاصل ہورہا ہے، مذہبی سیاحت کو نہ صرف کسی خٓاص مقدس مقام کی زیارت کےلئے منفید قرار دیا جاسکتا ہے بلکہ اسے انسانوں کے مابیبن دوستی اور ایک تفریح شکل کے طور پر ایک انسانی راہ میں اہمیت کے حامل کے سفر کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے ،خیبر پختونخوا قدیم مذاہب کا حامی علاقہ مانا جاتا ہے ، جس میں گندھارا ، ہندو ، سکھ اور دیگر مذاہب کے افراد رہائش پذیر رہے تھے جس کی اہم وجہ خیبر پاس قرار دیا گیا ہے، جو کہ سنٹرل ایشاءکا گیٹ وے تصور کیا جا تا ہے ، سیاحت کے زریعے مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کے سلسلے میں ٹوورازم کارپوریشن خیبرپختونخوا نے صوبہ میں پہلی بار امریکہ سے آنےوالی سیکھ برادری کے وفدکیلئے دورہ پشاور میوزیم کا اہتمام کیا ، 30رکنی وفد کو پشاور میوزیم کے دورے کے موقع پر میوزیم میں موجود آرٹ ، آثار قدیمہ ، نوادرات اور دیگرقدیمی اشیاءکے بارے میں معلومات فراہم کی گئیں دورہ میں 20 خواتین اور 10 مرد شامل تھے، 30رکنی وفد میں شامل یاتریوں میں حرجاپ سنگھ، جرنیل سنگھ، مدن جیت ، اوتار، دل جیت سنگھ، امریک ، شنگارا سنگھ، پرمندر کور، اوتر کور، گردیال، ستپال، جاسبر، سورندر ،پرمجید، مانجیت، حاردیپ، کشمیر کوراور دیگر شامل تھے ، سیکرٹری محکمہ سیاحت ، کھیل، آثارقدیمہ و امور نوجوانان طارق خان ، منیجنگ ڈائریکٹر مشتاق احمدخان نے زائرین کو خوش آمدید کہا ،دورے کے موقع پر تمام مہمانوں کو میوزیم اور صوبہ میں موجود مذہبی عبادت گاہوں ، آثار قدیمہ ، قیمتی نوادرات اور دیگر کے بارے میں بریفنگ دی گئی، جنرل منیجر ٹوررسٹ انفارمیشن اینڈ ایونٹس محمد علی سید کا کہنا تھا کہ سکھ یاتریوں کا دورہ پشاور میوزیم کا مقصد خیبرپختونخوا میں موجود بدھ مت ،سیکھ کودواروں ، پارسیوں کی عبادت گاہیں اور دیگر مذہبی مقامات و عبادت گاہوں کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ سیاح و دیگرمذاہب سے تعلق رکھنے والے ان مذہبی مقامات کا رخ کرسکیں، انھوں نے بتا یا کہ خیبرپختونخوا کو مذہبی سیاحت کے لحاظ سے خاص اہمیت حاصل ہے اور یہاں پر90 فیصد سیکھ برادری کی عبادت گاہیں ہیں ،سیکھ برادری کو ہمیشہ پشاور اور خیبرپختونخوا میں خوش آمدید کہیں گے اور یہاں بہترین استقبال کیا جا ئے گا ، انھوں نے بتا یا کہ امریکی نژاد سکھ یاتریوں کی جانب سے سکھ مذہب کے روحانی پیشوا بانی بابا کورونانک کی 548 ویں جنم دن کی تقریبات کے حوالے پاکستان میں مذہبی دورے پر آئے تھے جنھوں نے ٹوورازم کارپوریشن خیبرپختونخوا سے پشاور کے دورہ کر نے کی درخواست کی تھی جس کو محکمے نے قبول کیا اور ان کے تمام تر انتظامات ترتیب دئیے گئے، میوزیم کے دورے کے موقع پر عام شہریوں نے بھی یاتریوں سے ملاقات کی اور مختلف مو ضعات پر تبادلہ خیال کیا، دورے کے موقع پر سکھ یا تریوں کا کہنا تھا کہ ہمیں خوشی ہے کہ گرونانک کے 548ویں جنم دن کے موقع پر پشاور کا رخ کیا۔اس موقع پر وفد میں موجود خاتون نوودید اور دیگر سیکھ یاتریوں کا کہنا تھا کہ یہاں آکر ان آثار قدیمہ ، نوادرات ، مذہبی عبادت گاہوں اور دیگر کے بارے میں جان کر اور انہیں دیکھ کر اچھا لگا جہاں ایک وقت میں ہمارے بڑوں کی حکمرانی ہوا کرتی تھی ، ہمیں ہندوستان سے زیادہ یہاں پیار ملا اور تحائف دیئے گئے پشاور کے عوام میں آکر ایسا لگا جیسے اپنے ہی دیس میں آئے ہوں، ان کا کہنا تھا ہیاں آکر معلوم ہوا کہ پاکستان کے خلاف پروپیگنڈ حقیقت اور حالات کے بلکل بر عکس ہیں، پاکستانی لو گ نہایت ملنسار ، خوش اخلاق ، امن پسند اور عاجز ی رکھنے والے لو گ ہیں ہم ہیاں آکر فخر اور سکون محسوس کر رہے ہیںان کا کہنا تھا کہ ہیاں آکر پشاور میں لوگوں سے ملنے والا پیار ہم کھبی ہیں بھلا سکیں گے، ٹوورازم کارپوریشن خیبرپختونخوا کے زیر اہتمام مذہبی سیاحت کےلئے اقدمات کے دوررس نتائج سامنے آئیں گے، حسب روایات پشاور کے دورے میں شامل سکھ یاتری امن و آشا کا پیغام لے کر جا ئینگے اور پوری دنیا کو پیغام ملے گا کہ خیبر پختونخوا میں اقلیتی برادی محفوظ ہے ہم امید کر سکتے ہیں دورہ پشاور میں شامل سکھ یا تری پشاور کے عوام کی مہمان نوازی اور پرامن شہر کی داستان اچھے الفاظ میں یاد کر ینگے

peshawar museum

شہزادہ فہد

عجائب گھر ایک ایسا ادارہ ہے جہاں کتب یا آثار کا تحفظ کیا جاتا ہے اور دیکھ بھال بھی۔ اس میں علوم و فنون کے نمونہ جات، وراثتی، ثقافتی، تہذیبی تمدنی، اور ارتقاءجیسے شعبہ جات کے آثار کا تحفظ کیا جاتا ہے اور نمائش کے لیے رکھا جاتا ہے دنیا بھر کے عجائب گھروں میں رکھی ہو ئی اشیا ءگزری ہو ئی قوموں کی ثقافت ، تہذیب و تمدن کی عکاسی کر تی ہیں، خیبر پختونخوا میں مختلف تہذیبوں کا مرکز رہا ہے یہاں بسنے والی قوموں کی کچھ نشانیاں ہما رے پاس تا حال محفوظ ہیں ، جو کہ پشاور میو زیم میں نمائش کےلئے رکھی گئی ہیں، پشاور میو زیم تعیمرات کے حوالے سے ایک شہکار مانا جا تا ہے جو کہ ایک صدی سے زائد عرصہ قبل بنایا گیا تھا ، جس میں مغل اور برٹش دور حکومت کی عکا سی کی گئی ہے، پشاو رمیو زیم ایم پی اے ہاسٹل اور کینٹ ریلوے اسٹیشن کے درمیان جیل پل سے تقریبا پانچ منٹ مسافت پر واقع ہے، میوزیم میں گندھارا مجسمے، سکے، مسودات اور قرآن کی کاپیاں، شلالیھ، ہتھیاروں، کپڑے، زیورات، کالاش پتلوں، مغل دور کی پینٹنگز اور سکھ انگریز ادوار کی ایشاءاور مقامی مختلف تہزیبوں کی دستکا ریاں موجودہ ہیں ، پشاور میو زیم کی تاریخ کے بار میں بتا یا جا تا ہے کہ ملکہ وکٹوریہ کی یاد میں1906 ء میں تعمیر کیا گیا تھا ،دو منزلہ عمارت، برطانوی اور مغل تعمیراتی شیلیوں کی آمیزش، اصل میں ایک مرکزی ہال اور زمین اور پہلی منزل پر دو طرف دروازوں پر مشتمل ہے. میوزیم کی عمارت میں مزید دو ہالز کو مشرقی اور مغربی دروازوں کو ختم کرکے شامل کیا گیا. اس وقت پشاور میوزیم دنیا میں گندھارا آرٹ کا سب سے بڑا مجموعہ ہے. میو زیم میں نوادرات کے ساتھ برٹش دور کی بندوقیں ، جو کہ وہ خو د استعمال کر تے یا ان کے خلاف استمعال کی جا تی تھیں پڑی ہیں ، مرکزی ہال میں گندھارا آرٹ کے موضوع مہاتما بدھ کی زندگی کی کہانیاں، معجزات، علامات، اوشیش تابوت اور انفرادی کھڑے مہاتما بدھ کے مجسمے کی پرستش بھی شامل ہے ، میوزیم کے ایک حصہ میں حصے میں خیبر پختنونخوا اور چترال کے Kalasha کے اہم قبائل کی ثقافت کی اشیاءنمائش کےلئے رکھی گئی ہیںجن میں تلواریں، خنجر، نیزوں، کمان، تیر، ڈھالیں، توتن بھری ہوئی گن، ریوالور، پستول اور بارود خانوں کو بھی شامل ہیںجبکہ میوزیم کی گیلریوں میں بھارت اور ہند یونانی حکمرانوں کے مسلمان حکمرانوں کے سکوں سیمت زیورات اور دیگر اشیاء ڈسپلے پر موجود ہیں، میوزیم میں خیبر پختونخوا کے مختلف آرکیالوجکل سائیڈز جن میں ، تحت بھائی ، شاہ جی ڈھیری ، سری بہلول ، جمال گھڑی اور دیگر سے دریافت ہونے والے نوادرات رکھے گئے ہیں، پشاو ر میوزیم کی تا ریخ کے بارے میں بتا یا جاتا ہے کہ دراصل پشاور میوزیم ( وکٹورین میموریل ہال ) برطانوی فوجی اور سول افسران کے ثقافتی اور سماجی سرگرمیوں کے لئے ایک مرکز کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا. تاہم آثار قدیمہ مشن صوبہ سرحد کے مختلف علاقوں میں کھدائی شروع ہو نے کے بعد جب برطانوی حکمرانوں کو ایک میوزیم کے لئے ضرورت کا احساس ہوا تو انھوں نے1906 ءمیں اس یادگار عمارت کو میوزیم میںتبدیل کر دیا ،محکمہ آثار قدیمہ و عجائبات کے فوکل پر سن نواز الدین صدیقی کا کہنا تھا کہ انگریز جب ایشاءمیں آئے تو وہ ہر قوت خزانے کی تلا ش میں سرگرداں رہتے تھے کھدائی کر تے تھے اور قیمتی نوادرات اپنے ساتھ لے جاتے ہیاں سے ملنے والے نوادرات ، سونا، بدھا مجسموں کی دریافت پر وہ ان کو زاتی ملکیت سمھجتے تھے ، ارکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے قیام کے بعد سروے شروع ہو ئے نو ادرات کو تلاش کر کے انھیں برٹش میو زیم ، کلقتہ میوزیم شفٹ کیا جا تا تھا ان عجائب گھروں میں کندھارا آرٹ گلیریاں ابھی بھی موجود ہیں1906ءمیں خیبر پختونخوا سے دریافت ہو نے والے بھا ری قدامت مجسموں کو منتقل کر نے کے عمل میں دوشواریاں سامنے آئی تو انگریزوں نے پشاورمیں وکٹورین میموریل ہال کو میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا ، پشاور میوزیم کو بطور ڈسٹرکٹ اسمبلی کے طور پر بھی استمعال کیا گیا جبکہ سرکا ری تقریبات کےلئے بھی بلڈنگ استمعال کی گئی ہے ،پشاور میوز یم پوری دنیا میں بہترین نمونوں کےلئے مشہو ر ہے اس وقت کندھا را آرٹ کی سب سے بڑی کولکشن کے ساتھ اسلامی تہذیبوں اور سکھ ، ہندو دور کی پینٹنگ کی بڑی تعداد موجود ہے ، دنیا بھر سے بدھ مت کے پیروکار پشاور میوزیم آتے ہیںجبکہ لوکل افراد ، سکول، کالچ، یونیورسٹیوں کے طلباءکی گہماگہمی لگی رہتی ہے

سانس لیتا فرش
وکٹورین میموریل ہال کی پشاور میوزیم یں تبدیلی کے بعد میوزیم کا فرش جو کہ انگریزوں کی ثقافتی سرگرمیوں کےلئے بنایا گیا تھا اپنی نویب کو واحد فرش ہے ہے کہ چوبیس گھنٹے سانس لیتا ہے ایک صدی گزر جانے کے باجود اپنی اصلحالت میں موجود ہے ، بہترین تمعیر کا شہکار ڈانسنگ فلور لکٹری سے بنایا گیاتھا جو کہ زمین سے چار فٹ اوپر ہے ، لکٹری کو دیمک لگانے کے پیش نظر فرش میں نالیاں بچھائی گئی تھیں جس سے ہوا فرش کے اندر گردش کر تی رہتی ہے اس کا اہمتام اس لئے کیا گیا تھا کہ دیمک کے ساتھ اسے نمی سے بھی محفوظ رکھا جاسکے ، بدقسمتی سے میوزیم کے قریب سڑک کی تمعیر سے ہونے سے ہوادان بندہو گئے تھے جس سے فرش کو نقصان پہنچا تھا موجود حکومت کی جانب سے مزکورہ ہوادانوں پر بر قی پنکھے لگائے گا دئیے گئے ہیں

peshawar4OLYMPUS DIGITAL CAMERApeshawar-museu-headspeshawar-3

سانس لیتا فرش

kp actors problems

asif-kahan

فلم سٹار آصف خان

batan-faroki

اداکار باطن فاروقی

guzar alaum.jpg

گلوکار گلزار عالم

 
رپورٹ ، شہزادہ فہد

 

 

فن کار معاشرے کو نیا خیال دیتا ہے معاشر ے میں جمالیاتی حسن کے لئے فن کا ہو نا بہت ضرروی ہے پشاور کے فنکا روں نے دنیا بھر میں اپنی الگ حاصل ہے یہاں کی مٹی نے بڑے عظیم فنکار پیدا کئے، جن کا سکہ بالی وڈ اور ہالی وڈ میں چلتا رہا ہے،فن کی ترویج کےلئے پشاور میںسابق گو رنر فضل حق نے نشترہال کی بنیاد رکھی نشتر ہال میں ثقافتی پروگرمات کے انعقاد سے فنکاروں کو بہت فائدا ملا اس دور میں نشرہال میں پینٹنگ کلاسز ، مشاعرے ، سٹیج ڈرامے میوزیکل کلاسز ہو تی تھی ،خیبر پختونخوا کے فنکا روں کا ایک سنہرا دور ہو ا کر تا تھا اچانک حالات نے پلٹا کھایا ، خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کی لہر سے بیشتر فنکار صوبے چھو ڑ گئے ،باقی رہ جانے والے فنکا روں نے دیگر روزگار کو زریعہ معاش بنا یا صوبے میں ثقافتی سرگرمیاں معدوم ہو کر رہ گئیں، فنکا روں کو جان کے لالے پڑ گئے ،2013میں جزل انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف خیبر پختونخوا میں اکثریت سے کا میاب ہو ئی ، خیبر پختو نخوا حکومت نے فنکاروں کےلئے نت نئے منصوبے بنائے ، پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہورہاہے کہ فنکاروں کی قربانیوں اور انکی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں ایوارڈ کے طورپر 30 ہزار روپے ماہانہ جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیاہے ، جو ملک کی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائیگا حکومت نے فن وثقافت کے شعبے کی سرپرستی کیلئے عملی بنیادوں پر کام شروع کیا اس فیصلے سے فنکاروں اور فن سے وابستہ دیگر ہنرمندوں کے حوصلے مزید بڑھ گئے ہیں اور انہیں اب احساس ہوگیا ہے کہ فن وثقافت حکومت کی اولین ترجیح ہے اور حکومت نے موجودہ وقت میں فن وثقافت اور اس سے وابستہ فنکاروں اور ہنرمندوں کی مسائل کے حل کیلئے تاریخی اقدامات اٹھائے ہیں اس خطے کے عوام بالخصوص فنکار اور ہنرمند انکے ان تاریخی اقدامات کو کبھی نہیں بھولے گی یہ اقدامات تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے جائیں گے فنکاروں اور فنون لطیفہ سے وابستہ افراد کیلئے 30ہزار روپے ماہانہ اعزازیہ شروع کرنا ایک تاریخ ساز اقدام ہے ، چیف منسٹر ہاوس میں فنکار وں کےلئے باقاعدہ تقریب کا اہمتام کیا گیا جس میں چیئر مین پاکستان تحریک انصاف عمران خان ، وزیر اعلی خیبر پختونخوا پرویز خٹک ، سیکرٹری کلچر و ثقافت اعظم خان اور دیگر افسران نے شرکت کی اس موقع پر 500 فنکا روں کو ماہانہ اعزایہ کے چیک دئیے گئے ، تقریب سے خطاب کر تے ہو ئے وزیر اعلیٰ اور پی ٹی آئی چیئر مین عمران خان نے فنکار وں کو خراج تحسین پیش کیا اور ان کی خدمات کو سراہا ، اس موقع پر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے فنکا روں کےلئے اعزایہ جا ری رکھنے کا کہا تھا حکومت کی جانب سے فنکا روں کو اعزایہ دینے پر کچھ سنیئر فنکاروں نے مذکورہ منصوبے پر تحفظات کا اظہار کیا ان کا کہنا تھا کہ محکمہ کلچرو ثقافت کی جانب سے خیبر پختونخوا کے فن کاروں کو ماہانہ30 ہزار روپے اعزایہ دینے سے فنکار بھکاری بن جا ئے گا انھوں نے حکومت کو تجویز دی کہ محکمہ کلچر اعزایہ کی بجا ئے ثقافتی سرگرمیاں شروع کر ے روپے دینے سے فن پروان نہیں چڑے گا بلکہ مزید زورال پذیر ہو جا ئے گا ، ان کے خدشات نے حقیقی روپ اس وقت اختیار کیا جب آٹھ ماہ پر مشتمل منصوبہ ختم ہو ا ، حکومت کی جانب سے منصوبے کی آخری قسم تا حال ادا نہیں کی گئی ہے ، اس ضمن میں محکمہ کلچر خیبر پختونخوا کے ذمہ دار اہلکار کا کہنا ہے کہ کچھ تکنیکی وجوہات پر آخری قست جا ری نہیں کی گئی ہے عنقریب ہی آخری قست جا ری کر دی جا ئے گی ، حکومتی امداد بند ہو نے اور صوبے میں ثقافی سرگرمیوں کے عدم انعقاد سے فنکاروں کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ گئے ہیں ، حکومت کی جانب سے صوبے بھر میں ثقافتی سرگرمیاں نہ ہو نے کے برابر ہیں حکومت کی جانب سے اعزایہ کو جا ری رکھنے اور نشتر ہال کی تزین و آرائش کے بعد مذکورہ500 فنکا روں کو برسر روزگار راور فن کی ترویج کےلئے عملی اقدامات وقت کی اشد ضرورت ہے ، نشتر ہال میں حکومتی سطح پر ثقافتی تقاریب کے انعقاد سے جہاں فنکاروں کو مالی فائدہ ملے گا وہاں دہشت گردی کے ستائے ہو ئے شہریوں کو ایک سستی تفریح بھی میسر ہو گی ،محکمہ کلچر کے زیر انتظام نشتر ہا ل میں ثقافتی ڈرامے ، مزاحیہ خاکے ، میوزیکل کنسرٹ کے انعقاد سے ڈیپارنمٹ کو بھی فائد ہ حاصل ہو گا ، اس کےلئے محکمہ کلچرل کو زیادہ محنت نہیں کر نی پڑے گی ، محکمے کے پاس پانچ سو سے زائد فنکاروں کا ڈیٹا اعزازیہ کی مد میں پہلے سے موجود ہے ، جن میں گلوکار ، طبلہ نوا ز ،رباب نواز آرٹسٹ سیمت ہنر مندوں شامل ہیں ان افراد کو نشتر ہال میں منعقد کی جانے والی تقاریب میں شامل کیا جا ئے اور معقول معاوضے دیا جا ئے جس سے فنکار وں کی حوصلہ افزائی بھی ہو گی فن کی خدمت بھی جاری رہے گی ،

khyber pukhtun khwa cenima

شہزادہ فہد ۔
دنیا بھر میں تعلیم کے ساتھ ساتھ فلم کے زریعے لو گوں کے ذہنوں کو تبدیل کر نے کے نئے سینما کلچر کی بنیا د رکھی گئی، انیسویں صدی کے آخر سے بیسوں صدی کے اوائل تک برصغیر پاک و ہند کے عام لوگوں کو ”فلم “ جیسی کسی چیز سے کو ئی واقفیت نہ تھی سینما کی تاریخ کے متعلق بتا یا جا تا ہے کہ 1896 عسیوی میں فرانس کے دو بھائی ”لو میئر برادرز “ اپنی ایجاد کر دہ ایک چھو ٹی سے پروجیکٹر مشین لے کر ممبئی آئے اور ایک ہو ٹل میں فلم شو کو آغاز کیا جس کا ٹکٹ دو روپے تھا ، لو میئر برادرز نے 7 جو لا ئی 1896 کو ممبئی کے واٹسن ہو ٹل کے ہا ل میں چار شو دکھائے ہر شو میں تقریبا دوسو افراد نے یہ فلم دیکھی ،سینما میں فلم دیکھنا دراصل شوشل ایونٹ ہے جس میں تمام ہا ل کا اکھٹے ہنسنا،رونااور دیگر جذبات کا یکجا ہونا فطری عمل ہے ، صوبا ئی دارلحکومت پشاور سینما کا رنگین دور رہا ہے ، ہما رے بزرگ فیملی کے ساتھ فلم دیکھنے جا تے تھے پشاور میں سب سے پہلے سینما قصہ خوانی بازار میں میں پہلی جنگ عظیم کے کچھ عرصہ بعد تعمیر کیا گیا یہ عارضی سینما کابلی تھانے کی عمارت کے قریب تھا جہاں خامو ش فلموں کی نما ئش ہو تی تھی ، 1925 کے لگ بھگ پشاور کے ایک ہند و سیٹھ اچر چ رام گھئی نے جس کی قصہ خوانی میں امپیریل شوز کے نام سے جو توں کی دکان تھی جس نے کا بلی دروازے کے باہر ” امپیریل تھیٹر “ کے نسام سے ایک سینما تعمیر کروایا ، یہ پشاور کو پہلا مکمل با ئیسکو پ تھا یہاں پر بھی خا مو ش فلموں کی نما ئش کی جا تی، 1931 میں ہند وستان کی پہلی بولتی فلم ” عالم آرا “ کی نما ئش کی گئی ، اس تھیٹر کا نام بعد میں تبدیل ہو کر ” امپیریل ٹاکیز “ رکھ دیا گیا ، صوبے کا دوسرے با ئیسکو پ کی بنیاد ایک سکھ تا جر دسونتی سنگھ نے رکھی جس کو ” پیکچرہا وس “ کا نام دیا ، کابلی دروازے کا اخری سینما ” دلشاد ٹاکیز “ ( مو جود ہ تصویر محل ) پشاو کے سیٹھ غلام رسول کھوجہ سوداگر چرم نے بنوایا ، یہ سینما آغا جی اے گل نے لیز پر حاصل کیا تھا اور تقسیم پاک و ہند تک ان کے پاس رہا قیام پاکستان کے بعد جب آغا جی اے گل لا ہوا شفٹ ہو ئے تو انہوں نے یہ سینما پشاور کے صابر ی ہو ٹل کے مالک حا جی فیروز صابر ی کی تحویل میں دے دیا جنھوںنے اس کا نام دلشاد ٹاکیز سے تبدیل کر کے تصویر محل رکھ دیا ان سینما ووںسے کابلی دروازہ ایک مکمل سینما ما رکٹ بن گیا تھا ، اسی طر ح پشاور کے سردار ارجن سنگھ نے آساما ئی دروازے کے باہر ایک با ئیسکو پ” وائٹ روز تھیٹر “ تعمیر کروایا یہ سینما بھی پشاور کے دیگر سینما ووں کی طر ح فعال تھی قیام پاکستان کے بعد سینما پشاور کے رئیس جان محمد خان کو الاٹ ہو گیا اس سینما کا نام تبدیل کر کے ” ناز سینما “ رکھ دیا گیا، پشاور میں مین جی ٹی روڈ پر قائم فردوس سینما اودیات کے معروف تاجر ایم اے حکیم کے چھو ٹے بھائی آغا جی اے گل نے بنوایا،اس سینما کی تعمیر دوسری جنگ عظیم 1945 کے بعد شروع ہو ئی اور 1974 میںاس کی تعمیر مکمل ہو ئی اس سینما کا شماراپنے وقت کے بہترین سینما میں ہو تا تھا ، پشاور کینٹ کے سینما کے بارے میں بتا یا جاتا ہے کہ کینٹ میں فلموں کی نمائش 1921-22 میں ہو ئی تاہم یہاں فوجی افسران کے علاوہ کسی اور کو فلم دیکھنے کی اجازات نہ تھی یہاں پر صرف خامو ش انگریزی فلموں کی نما ئش کی جا تی تھی ، 1931 میں یہاں دوبارہ بلڈنگ تعمیر کی گئی اور کا فی عرڈہ تک اسے گریزن سینما ہی کہا جا تا رہا آک کل یہ پاکستان ائیر فورس کے زیر اہتمام چل رہا ہے اور اسے ” پی اے ایف سینما “ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اس کے علاوہ کینٹ میں پرانے سینماووں میں ’ ڈی لیکس ، ڈی پیرس کو دوسری جنگ عظیم کے بعد بند کر دیا گیا تھا 1930-31 میں پشاور کے ایک سیٹھ ایشور داس ساہنی نے پشاور کینٹ میں اپنا ذاتی سینما ” کیپٹل سینما“ تعمیر کروایا یہ سینما اپنی نو یت کا خا ص سینما تھا جس کو ممبئی کے میٹرو سینما کے ڈیزائن پر بنایا گیا تھا یہ اس وقت کا جدید ترین سینما تھا جس میں انگریزی فلموں کی نمائش ہو تی تھی اور بعد میں اردو فلموں کی نما ئش بھی ہو ئی اس سینما کے مالک سیٹھ ایشور داس ساہنی کے انڈیا میں چالیس سینما گھر تھے تاہم ان کا ہیڈ آفیس پشاور میں ہی تھا اس سینما کے احاطے میں پرنٹنگ پریس بھی تھا جو کہ فلموں کے پرسٹر ز اور تصاویر پرنٹ کر تا تھا سینمامیں سوڈا وارٹر کی کانچ کی گولی والی بوتل کی مشین نصب تھی اور ڈرائی فروٹ ، نمکین دالیں ، مو نگ پھلی وغیر ہ لفافوں میں پیک کرکے ہندوستا کے سینما گھروں کو بھیجا جا تا تھا ،کینٹ میں ایک اور سینما ” لینسڈا “ جس کا نام تبدیل کر کے فلک سیر سینما رکھا گیا جو کہ اپنے وقت میں انگریزی اور اردو فلموں کی نمائش میں پیش پیش رہا ، دہشت گردی سے متاثر صوبے میں جہاں شہریوں کو تفریحی مواقع میسر نہیں ہیں وہاں شہریوں میں ذہنی تنا وع بڑھ رہا ہے حکومت کی جانب سے سینما کلچر کے فروغ کےلئے اقدامات نہ ہو نے سے شہریوں میں ما یوسی پھیل رہی ہے، چند دھا ئی قبل پشاور میں فیملی کے ہمراہ فلم دیکھنے کا رواج تھا جو کہ قصہ پا رینہ بن چکا ہے صوبائی دالحکومت پشار میں سینما کلچر آخری ہچکولے لے رہا ہے اس وقت پشاور میں گنتی کے چند سینما فعال ہیں جن میں سینما روڈ پر پکچر ہا وس اور تصویر محل ، سویکارنو چوک میں صابرینہ اور ارشد سینما ، جبکہ کینٹ میں کیپٹل سینما شامل ہیں،کچھ عرصہ قبل ہی سینما روڈ میں ناولٹی سینما ، فلک سیر پشاور کینٹ ، فردوس شبستان سینما ، میڑو سینما کو ختم کرکے بڑے بڑے پلازوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے جبکہ گلبہار میں واقع عشرت سینما کئی سالوں سے بند پڑی ہے پشاور میں باقی رہ جانے والے سینما وں کshama-cenma-ka-baroni-manzartsweer-mahal-cinmapicter-houne-cinma-ka-manzar

sabiqa-frdos-cenma-palaza-banny-jarha-hy
sabiqa firdos ( shabistan) cenma par bany wala plaza

sabiqa-nawlty-cinmaa-ka-manzr-jaha-palaza-bna-diyz-giya-hyی حالت بھی انتہا ئی خستہ ہے ، صوبائی دارلحکومت سیمت صوبے کے دیگر اضلاع میں بھی یہی حال ہے کو ہا ٹ ، بنوں ، ڈیرہ اسماعیل خان ، کو ہاٹ ، نو شہرہ ، اور مردان میں تیزی سے سینما گھروں کو پلا زوں اور کمر شل سرگرمیوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے ، پشاور میں سینما گھروں کی ویرانی میں حکومت اور فلمی دنیا سے وابسطہ افراد نے کردار ادا کیا وہاں رہی سہی کسر دہشت گردی نے پوری کر دی ، 2فروری کو سینما روڈ پر واقع پکچر ہا وس سینما میں پشتو فلم ” ضدی پختون “ کی نمائش کے دوران نامعلوم افراد کی جانب سے دوران شو ہینڈ گرنیٹ حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں 7افراد جاںبحق اور 30 سے زائد زخمی ہو ئے اسی طر ح چند روز بعد 11فروری کو باچا خان چوک کے قریب شمع سینما میں بھی شو کے دوران ھینڈ گرنیٹ حملہ کیا گیا جسمیں 14 افراد جاںبحق اور 23 زخمی ہو ئے مذکو رہ واقعات کے بعد شائقین کے ذہنوں میں خو ف و ہراس پھیل جانے سے پشاور کے سینما گھر ویران ہو گئے، اسی طر ح ایک ریلی کے دروان مظاہرے اور توڑ پھوڑ پر مشتعل مظاہرین نے شبشتان سینما کو آگ لگا دی جس کے بعد شبستان سینما فروخت کر دیا گیا ، دہشتگرود ں سے خائف سینما مالک دب کر بٹیھ گئے اسی دوران کیپٹل سٹی پولیس نے سینماوں میں سیکورٹی کے نام مالکان کے خلاف مقدمات کا سلسہ شروع کیا اور درجنوں مقدمات نا قص سیکو رٹی کی بناءپر درج کئے گئے ہیں ، جس کے باعث بیشتر سینما مالکان اس کاروبار سے کنارا کش ہو کر دیگر کا روبار کی جانب راغب ہو رہے ہیں جس سے خیبر پختونخوا میں سینما کلچر دم توڑ رہا ہے ، ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبا ئی حکومت پشاور میں سینما کلچر کے فروغ کےلئے عملی اقدامات اٹھائے تاکہ دہشت گردی سے متاثر شہریوں کو سستی تفریح کے مواقع میسر ہوں

wall city peshawar

رپورٹ و تصاویر
شہزادہ فہد

پشاور پاکستان کے شمال مغربی حصے میں واقع ہے اس کا شمار پاکستان کے بڑے شہروں میں ہو تا ہے ، وسطی جنونی اور مغربی ایشیاءکے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہو نے کی وجہ سے پشاور صدیوں سے افغانستا ن جنو بی ایشیاء، وسطی ایشیاءاور مشرق وسطی کے درمیان ایک مرکز کی حیثیت سے قائم چلا آرہا ہے ، محکمہ آثار قدیمہ خیبر پختونخوا کے مطابق پشاور کو دنیا بھر میں یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ شہر ہر دور میں آباد چلا آ رہا ہے ،وید دیومالا میں پشاور اور آس پاس کے علاقے کو “پشکلاوتی” کے نام سے جانا جاتا ہے جو “رامائن” کے بادشاہ “بھارت” کے بیٹے “پشکل” کے نام سے منسوب ہے۔ تاہم اس بارے ابھی کوئی یقینی رائے موجود نہیں ہے مصدقہ تاریخ کے مطابق اس علاقے کا عمومی نام “پورش پورہ” (انسانوں کا شہر) تھا جو بگڑ کر پشاور بن گیا۔ دوسری صدی عیسوی میں مختصر عرصے کے لئے وسطی ایشیاءکے توچاری قبیلے “کشان” نے پشاور پر قبضہ کر کے اسے اپنا دارلحکومت بنایا۔اس کے بعد 170 تا 159 ق م اس علاقے پر یونانی باختر بادشاہوں نے حکمرانی کی اور اس کے بعد مملکتِ یونانی ہندکے مختلف بادشاہ یہاں قابض ہوتے رہے۔ ایک تاریخ دان کے مطابق پشاور کی آبادی 100 عیسوی میں ایک لا کھ بیس ہزار کے لگ بھگ تھی اور اس وقت آبادی کے اعتبار سے دنیا کا 7واں بڑا شہر تھا۔ بعد میں پارتھی، ہند پارتھی، ایرانی اور پھر کشان حکمرانوں نے قبضہ کئے رکھا۔ 1812 میں پشاور پر افغانستان کا قبضہ ہوا لیکن جلد ہی اس پر سکھوں نے حملہ کر کے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا مہاراجہ رنجیت سنگھ نے پشاور پر قبضہ کر کے یہاں کا دورہ کیا اور 1834 میں اسے سکھ ریاست میں شامل کر لیا ،2008 میں پاکستان میں سکھوں کی سب سے بڑی تعداد پشاور میں ہی آباد تھی،پشاور میں تاریخی دروازوں کی تعمیر سکھوں کے دور میں ہوئی تھی جب سکھوں نے یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ پشاور کو مضبوط کیے بغیر وہ علاقے پر اپنا کنٹرول نہیں رکھ سکتے اور یہی وجہ ہے کہ سکھوں کے دور میں پہلی بار پشاور کے اردگرد موجود مٹی کی بنی ہوئی فصیل کو پختہ کیا گیا۔ اس سے پہلے بھی پشاور کی دیوار پناہ میں دروازے موجود تھے لیکن سکھوں نے ان دروازوں کی تعداد میں اضافہ کیا، حالیہ حکومت نے پشاور کے قدیم تاریخی فصیل کو محفوظ کر نے کےلئے ایک منصوبے منظور کیا جسے ”وال سٹی کا نام دیا گیا تاہم بد قسمتی سے ایک سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود منصوبے میں کو ئی خاطر خواہ پیش رفت نہ ہو سکی ،پشاورشہر میں سکھ دور میں تعمیر شدہ فصیل شہر کی بحالی کا منصوبہ ایک سال میں سروے بھی مکمل نہ ہو سکا گزشتہ سال 2015میں محکمہ آثار قدیمہ و عجائبات خیبر پختونخوا کوفصیل شہر کی بحالی کے منصوبے کےلئے20ملین روپے منظور کئے گئے تھے تاہم ایک طویل عرصہ گزرنے کے باوجود پراجیکٹ سست روی کا شکا ر ہے، پشاور کی چار دیوار ی اور 16تاریخی دروازوں کی تزئےن و آرائش و حفاظت کےلئے بلیجیم یونیورسٹی کی مددد سے نئی وال سٹی تعمیر کرنے کا منصوبہ بنا یا گیا تھا ، آرکیالوجی اینڈ میوزیمزحکام نے وال سٹی کو اتھارٹی میں تبدیل کر نے کا عندیہ دیا تھا تاہ

م ایک سال کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجواس ا نٹرنیشنل سطح کے پراجیکٹ پر کام ہوتا دکھائی نہیں دے رہا،رامداس بازار سے شروع ہونی قلعہ نما دیوار حکام کی خاموشی کے باعث اپنی اصل حالت کھورہی ہے جبکہ ٹھنڈ ا کھوئی گیٹ سے کچھ آگے دیوار کو گرا گیراج میں تبدیل کر دیا ہے اسے آگے کوہاٹی گیٹ تک دیوار کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہا ، کوہاٹی گیٹ سے چند قدم کے فاصلے پر پھر سے فصیل شہر اپنی اصل حالت میں موجود نظر آتی ہے تاہم مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث اس دیوار کو بھی جگہ جگہ سے توڑا جارہا ہے یہ دیوار کوہاٹی ٹیڈی گیٹ تک اپنی اصل حالات میں موجود ہے دیوار کے اوپر شہری رہائشیوں نے حفاظتی جنگلے بھی نصب کئے ہوئے ہیں ، یکہ توت گیٹ کے قریب بھی دیوار کا کچھ حصہ بچا ہوا ہے ، یکہ توت سے نشتر آباد چوک تک یہ دیوار مکمل طور پر غائب ہو چکی ہے، دیوار کو ختم کرکے گھر، مارکیٹ اور دوکانیں قائم کر دی گئی ہیں، حکومت کی جانب سے پراجیکٹ کو مکمل کرنے کےلئے کوالیفائےڈ اسٹاف بھرتی کیا گیا، تاہم کارکردگی صفر رہی ،پراجیکٹ کو بہتر انداز سے مکمل کرنے کےلئے پراجیکٹ میں کنزرویشن اسسٹنٹ، آرکیالوجسٹ ، آرکٹیکچر اور دیگر ماہرین کی پوسٹیں رکھی گئی تھیں جن پر گزشتہ سال سے ہی بھرتیاں مکمل کرلی گئی جبکہ لاہور وال اتھارٹی منصوبے میں کام کرنےوالے ایک افسر کو پراجیکٹ ڈائرےکٹر تعینات کیا گیا ہے جوکہ اس وقت محکمہ کلچرل خیبر پختونخوا کے مختلف پراجیکٹس میں بھی انتظامات چلا رہے ہیں ذرائع کے مطابق پراجیکٹ میں بھرتی ہونےوالے ملازمین کو بھاری تنخواہیں دی جارہی ہے لیکن پھر بھی کارکردگی صفر ہے ، ڈیفنس کالونی میں لاکھوں روپے ماہانہ پر ایک بنگلہ خرید کر پراجیکٹ آفس قائم کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود اس پراجیکٹ کا سارا عملہ تحصیل گورگٹھڑی میں موجود ہے جبکہ سرکاری رقم حاصل کر دہ بنگلہ بھوت بنگلے کا منظور پیش کر رہا ہے ،انٹرنیشنل سطح کے اس پراجیکٹ میں جہاں قدیم شہر پشاور کی اصل حالت میں آنے کے ساتھ غیر ملکی سیاحوں کو اپنی طرف راغب کر ے وہاں پشاور کے تاریخی ہنروں مثلاً تنکا سازی ، قراقلی، رباب بنانا وغیر ہ کے فن کو زندہ رکھنے کےلئے بھی بڑی رقم مختص کی گئی ہے جس کے تحت پشاور کے شہریوں کو یہ قیمتی ہنر سکھایا جا رہا ہے جس کےلئے اس ہنر میں پشاور شہر کے ماہر استادوں کی خدمات حاصل کی گئی ہے جبکہ کام سیکھنے والے ہنر مندوں کو بھی ماہانہ وظیفہ دیا جائےگاکام سیکھنے کا دورانیہ چار ماہ تک ہو گا جس کے بعد شاگردوں کو تعریفی سرٹیکفیٹ دئےے جائےنگے ، وال سٹی پراجیکٹ کے حوالے سے محکمہ آثار قدیمہ کے فوکل پرسن نو از الدین صدیقی نے بتا یا کہ وال سٹی پراجیکٹ پر کام جا ری ہے ، انھوں نے بتا یا کہ اس سلسلے میں پہلے مرحلے میں فصیل شہر کے اطراف میں قائم پرانی آباد ی پر سروے کیا جا رہا ہے جبکہ دوسرے مرحلے میں لسٹیں تیار کرکے زیا دہ متاثر مقامات پر فصیل شہر کی تعزین و آرائش کی جا ئے گی ، پراجیکٹ کےلئے کرایہ پر بنگلہ حاصل کر نے کے بارے میں ان کا موقف تھا کہ مذکورہ جگہ پر پراجیکٹ ڈائر یکٹر کےلئے مختص کی گئی ہے جہاں پرا جیکٹ کے متعلق دستایز اور دیگر ضروری معمالات حل کئے جا تے ہیں جبکہ پراجیکٹ کا دیگر سٹاف گور گھٹری میں مو جود ہوتا ہے انھوں نے بتا یا کہ 3 سالوں کے اس پراجیکٹ میں پشاور کا نقشہ تبدیل ہو جا ئے گا ،چےئرمین تحریک انصاف عمران خان کی خصوصی دلچسپی کے باعث یہ بین الاقوامی سطح کا منصوبہ پشاور میں پیش کیا گیا تاہم ایک سال کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود کوئی خاص پیش رفت نہ ہو سکی، ڈائرےکٹر آرکیالوجی اینڈ میوزیمز خیبر پختونخوا ڈاکٹر عبد الصمد نے وال سٹی اتھارٹی کے نام سے آرگنائزیشن بنانے کا عند یہ بھی دیا تھا جو کہ ان گیٹس اور چار دیوار کی حفاظت ، تزئےن و آرائش و دیگر معاملات پر نظر رکھے گی دوسری جانب اس چار دیوار ی کے اندر موجود سیٹھی ہاﺅس ، دلیپ کمار ہاﺅس ، گھنٹہ گھر ، گورگٹھڑی پشاور اور دیگر مقامات کی تزئین و آرائش کا عہد بھی کیا گیا تھا جبکہ اس تاریخی چار دیواری کے اندر واکنگ ٹریک بھی تعمیر کیا جانا ہے جہاں گاڑیوں کو جانے کی اجازت نہیں ہو گی پشاور کی عوام اور تاجر برادری بھی شہر کے اندر واکنگ ٹریک اور شہر کی تزئین و آرائش چاہتی ہے جسکو مد نظر رکھتے ہوئے شہر کو مزید خوبصورت بنایا جاسکتا ہے ، پشاور شہر میں برسوں سے قائم رہائشی گھروں، مارکیٹوں اور دوکانداروں کو ہٹانے کوئی آسان کام نہیں ہو گا کیونکہ یہ سب گزشتہ کئی دہائےوں سے یہاں پر بس رہے ہیں بعض گھروں کے رہائشیوں اورپلازہ مالکان کے مطابق اس وقت انکے پاس ان جگہوں کے انتقال اور رجسٹری کاغذات بھی موجود ہیں جس کے تحت انکے بزرگوں نے فصیل شہر میں قائم زمین خرید یں تھی اور وہ اسکا باقاعدہ سے ٹیکس بھی جمع کر وارہے ہیں واضح رہے کہ لاہور وال سٹی منصوبے کے دوران بھی وال سٹی کے عملے اور تاجروں کے دوران کئی جھڑپےں ہوئی جس میں کئی تاجر دوکاندار وں کو جانی و مالی نقصان ہو ا تھا، صوبائی حکومت کو بھی لاہور جیسے واقعات سے بچنے کےلئے جامع حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہو گیَپشاور کے باسیوںکا کہنا ہے کہ فصیل شہر کی بحالی اب کوئی آسان کام نہیں رہا شہر بھر میں فصیل کے اطراف میں نئی آبادیاں بنائی جا رہی ہیں جو کہ حکومت کےلئے چیلنج ثابت ہو سکتی ہیں، حکومتی دلچسپی اور تحفظاتی اقدامات کے باعث اس تاریخی دیوار کواپنی اصل حالت میں بحال کیا جاسکتا ہے جوکہ وقت کی ضرورت ہے ۔

REWATI TOPI (QARAQULI)

رپورٹ و تصاویر ۔شہزادہ فہد
عزت و احترام کی نشانی اور تاریخی اہمیت کی حامل قراقلی شب و روز کی گردش ایام کا نشانہ بنتے ہو ئے ما ضی کا حصہ بن گئی جو کہ بھولے سے یاد نہیں آتی رہی سہی کسر اس کے بنا ئے جا نے کی حقیقت نے پو ری کر دی۔ پشاور میں بنا ئے جا نے والی قراقلی دنیا بھر میں مشہور ہو نے کے ساتھ تاریخی اہمیت کی حامل ہے ۔ تین دہا ئی قبل پشاور میں قراقلی کی پچاس سے زائد دکانوں میں صرف دو دکا نیں با قی ہیں جبکہ اس پیشے سے منسلک سیکڑوں گا ریکر کا م نہ ہو نے کی وجہ سے پیشہ تبدیل کر چکے ہیں ۔ قراقلی کی قیمتوں میں اضافہ کے باعث شہر یوں نے اپنی روایات کا خیر آباد کہہ دیا ہے ۔ تین دہا ئی قبل جو قراقلی تین سو سے سات سو روپے میں میں ملتی تھی آج اس کی قیمت آٹھ ہزار سے با رہ ہزار روپے ہو گئی ہے ۔ قراقلی کے تا جر وں کے مطابق اس کو بنا ئے جا نے میں استعمال ہو نے والی کھال انتہا ئی مہنگی ہو گئی ہے جس کے باعث اس کے نرخوں میں اضافہ ہوا ہے ۔ قراقلی مو جود ہ حالات میں صرف شادی بیا ہ کے موقع پر پہنی جا رہی ہے جبکہ مو جود ہ حالا ت میں یہ روایات بھی دم توڑنے لگی ہیں ۔ مقامی دکانداروں کے مطابق مہینوں تک قراقلی کا کو ئی گا ہک نہیں آتا جس کے باعث دکاندار اور کا ریگروں کا مشکلات درپیش ہیں ۔ قراقلی بھیڑ کے کم سن بچے کی کھال سے بنا ئی جا تی ہے یہ بھیڑیں ایک خاص نسل کی ہو تی ہیں جو کہ افغانستان میں پا ئی جا تی ہیں ۔ مقامی دکاندروں نے بتایا کہ اس خاص نسل کو دیگر علاقوں میں افزائش نسل کےلئے لا نے کے تجربات کئے گئے ہیں تاہم تمام تجربات ناکام ہو ئے ہیں ۔ کم سن بچے کو ذبع کر نے کے بعد اس کی کھال کو نمک لگا کر رکھ دیا جا تا ہے اور پھر اسے کا رخانے دار پر فروخت کر دیتے ہیں جو کہ صفائی کے بعد اس کو بیوپاریوں کے ہا تھوں فروخت کر دیتے ہیں ۔قصہ خوا نی قراقلی کی صرف دو دکانیں با قی رہ گئی ہیں دہشت گر دی سے متاثر پشاورکے متعدد تا جر دیگر شہریوں کو منتقل ہو گئے ہیں وہاں قراقلی کے کا روبار کی تنزلی کے باوجود اس کا روبار سے منسلک تا جر ثقافت کے زندہ امین ہیں جن کا صلہ انھیں ملنا چا ئیے ۔

قراقلی کو ” جنا ح کیپ “ بھی کہا جا تا ہے جس کو با نی پاکستان قائد اعظم محمد علی جنا ح کے نام سے منسوب کیا جا تا ہے ۔ قراقلی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ پا کستانی کر نسی میں محمد علی جناح کی تصویر میں نمایا ں دیکھی جا سکتی ہے پاکستا نی کر نسی میں ایک روپے کے سکے سے پا نچ ہزار کے نو ٹ تک تمام تصاویر میں قراقلی واضح ہے ۔ قراقلی کی مختلف اقسام ہیں جن میں تلے والی ، سلیٹی ، کا لی اور بادامی قراقلی مشہور ہیں ۔ قراقلی کو سرکا ری ملازمین پہنتے تھے جس کی روایات بھی ختم ہو چکی ہے ۔ پا کستان پیپلز پارٹی کے بانی زولفقار علی بھٹو ، جزل ایوب خان ، جزل فضل حق اور دیگر معروف شخصیات بھی قراقلی شوق سے پہنا کر تے تھے ۔ مقامی دکانداروں نے بتا یا کہ ان تمام شخصیات کےلئے پشاور کے کاریگر اسپیشل قراقلی بناتے تھے ۔

پشاور میں بنا ئی جانے والی قراقلی امریکہ ،جاپا ن، لندن اور دیگر ممالک میں رہنے والے افراد کےلئے خصوصی آڈر پر تیار کی جا تی ہے ۔ قراقلی کی روایات کشمیری رہنما وں میں تاحال مقبول ہے ۔ حکومت کی جانب سے تاریخی اہمیت کی حامل اور پاکستانی رویات کی امین قراقلی کے فروغ کےلئے اقدامات نہ ہو نے کے برابر ہیں ۔جس جے باعث آنے والے نسلوں کو شاید قراقلی کا نام بھی یاد نہ رہے ۔ ایک وقت تھا کہ یہ رویات عام تھیں کہ ہر گھر میں بزرگوں اور خاندان کے بڑوںکے پاس قراقلی ہو تی تھی اور شاد ی بیاہ کے موقعہ پر اسے پہنا جا تا تھا

قراقلی جما عت اسلامی کے امراءباقاعدگی سے پہنتے تھے جبکہ مو جود ہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے یہ رویات ختم کر دی ہے۔ جما عت اسلامی کے بانی ابو اعلی مو دودی ، میاں محمد طفیل ، قاضی حسین احمد ، سید منور حسن قراقلی باقاعدہ پہنتے تھے جماعت اسلامی میں قراقلی کا رواج تا حال قائم ہے مو جود ہ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق اپنی علاقائی روایا تی ٹوپی استعمال کر تے ہیں جس کی وجہ قراقلی کی روایات ختم ہو گئی ہے ۔

fahad(1).jpg

peshawar mei baghat

پھولوں اور باغات کاشہر پشاور صرف کتابوں میں باقی رہ گیا
آج سے چند سول سال قبل وادی پشاور میں پھولوں ، درختوں اور باغوں کی بہار تھی، زیادہ تر صفحہ ہستی سے مٹا دئےے گئے
، موجودہ نسلیں ایک درجن سے زائد باغوں کے ناموں اور تاریخ سے واقف ہی نہیں
حکومتی عدم تو جہی سے پشاور میں موجود چند با غ بھی اپنی حالت زار بیا ن کر رہے ہیںباغات بارے حکومتی پالیسی نہ ہونے کے باعث مستقبل قریب شاید پشاور کے باسیوں کو موجودہ باغات اور پارکوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑے
پشاور وہ شہر ہے جے اس کے حسن کی بدولت ثمر قند و بخارا سے تشببیہ دی جاتی تھی لوگ اس کے باغوں کا قصہ اور کہانیوں میں ذکر کرتے تھے مگر ہم نے اس کے حسن میں مزید اضافہ کرنے کی بجائے اسکو اجاڑ دیا ہے

پشاور (شہزادہ فہد)وادی پشاور آج سے چند سال قبل پھولوں، درختوں اور باغوں کا محصور تھا یہاں کی ہوا اور موسم زیادہ تر معتدل رہتا ہے زمانہ قدیم سنسکرت کی ایک نظم میں اسے ”پشاپورا“ کے نام سے پکارا گیا ہے جس کے معنی ہیں” پھولوں کا شہر “ پشاور باغات کا مسکن تھا اور یہاں کے چمن مختلف اقسام کے پھولوں کےلئے جانے جاتے تھے پشاور ہمیشہ سے پرانی تہذیبوں کا مسکن مرکز رہا ہے جن کے آثار مختلف زمینی حقائق کی شکل میں آج تک محفوظ چلے آرہے ہیں اور جن کی ماضی میں کئی مرتبہ پذیرائی بھی کی جا چکی ہے پشاور شہر ، چھاﺅنی اور جامعہ پشاور میں درختوں اور سبزہ زاروں کو دیکھ کر تاثر ملتا ہے کہ اہلیان پشاور قدیم زمانے ہی سے باغبانی ، پارک بنانے اور سبزہ زاہ لگانے کے بے حد شوقین ہی نہ تھے بلکہ اُنکی حفاظت کے معاملے میں کافی باشعوربھی تھے جسکی وجہ سے بعض صدیوں پرانے باغات آج بھی موجود ہیںجبکہ ان باغات کی اکثریت اب پشاور کی صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہے چند سو سال قبل وادی پشاور میں پھولوں ، درختوں اور باغوں کی بہار تھی اس کے اردگرد قدرتی جنگل واقع تھے جس میں شہنشاہ بابر نے گینڈوں کا شکار اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پشاور کے یہ جنگل کتنے گھنے اور اس کے باغ کتنے آباد تھے مگر آج پشاور کے اردگرد نہ وہ قدرتی جنگل ہیں اور نہ ہی اس کے ماتھے کا جھومر وہ تاریخ باغات، رفتہ رفتہ سب کچھ مٹ گیا ہماری موجودہ نسلوں کو ان باغوں کے حسن و جمال، جونی اور بہار کیسی تھی نہ صرف بلکہ بچ جانے والے تین باغوں شاہی باغ، وزیر باغ ، خالد بن ولید باغ و دیگر کی تاریخ سے بھی غالب اکثر واقف نہیں ۔شہر پشاور کے وہ قدیم ترین باغات جن کے نقوش مٹ چکے ہیں ان میں نذر باغ( قلعہ بالاحصار )، سید خان باغ ( ڈبگری گارڈن) پنج تیرتھ باغ، وائرلیس گراﺅنڈ باغ ،مقبرہ پری چہرہ باغ، سیٹھی باغ ( چغل پورہ) ، باغ سردار خان ( گورگٹھڑی) ، باغ بردہ قص ( قریب سائنس سپرئےر کالج) ، تیلیاں دا باغ ( ہزار خوانی )، چھانڑی باغ ،ملکاں دا باغ ( یکہ توت ) ، ماما رانی کا باغ (نزد آغہ میر جانی ) ، کرپال سنگھ گارڈن ( رامداس گیٹ )، رلے دا باغ ( موجودہ عمارات ریڈیو پاکستان )، بیر باغ ( ہزار خوانی روڈ)وغیرہ شامل ہیںبڑھتی ہوئی آباد ی کے باعث پشاورکے موجودہ باغات کو بھی خطرہ لاحق ہو رہا ہے باغات بارے حکومتی پالیسی نہ ہونے کے باعث مستقبل قریب شاید پشاور کے باسیوں کو موجودہ باغات اور پارکوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑے، پشاور وہ شہر ہے جے اس کے حسن کی بدولت ثمر قند و بخارا سے تشببیہ دی جاتی تھی لوگ اس کے باغوں کا قصہ اور کہانیوں میں ذکر کرتے تھے مگر ہم نے اس کے حسن میں مزید اضافہ کرنے کی بجائے اسکو اجاڑ دیا ہے پشاور کے باغوں اور سبزہ زاروں کو اُجاڑنے میں سیاسی اور انتظامی شخصیات ہی شریک نہیں رہیں بلکہ ہمارے مذہبی رہنما بھی اس سلسلے میں پیش پیش رہے ماضی قریب میں اند رو ن شہر مسجد نمکمنڈی کی جگہ ایک بہت بڑا پارک تھا یہ پارک اور اسکے ساتھ لائبریری بجوڑی گیٹ ، ڈبگری گیٹ ، سرکی گیٹ اور اس سے ملحقہ محلوں کے لوگوں کےلئے آسودگی اور تفریح کا باعث تھا روزانہ لائبریری میں سینکڑوں افراد مطالعہ کرتے اور پارک میں چہل قدمی کرتے مگر ہمارے مذہبی رہنماﺅں کو یہ بات پسند نہ آئی پاک، لائبریری اور اسکے ساتھ چھوٹی مسجد کو راتوں رات ایک بڑی مسجد میں تبدیل کر دیا گیا اہلیان پشاور پر یہ ظلم عظیم تھا کیونکہ اس مسجد سے ایک کمند کے فاصلے پر نمکمنڈی کی جامع مسجد اور کشمیری مسجد یہاں تک کہ ہر گلی ہر محلے میں ایک مسجد واقع تھی

fahadصو با ئی دالحکومت پشاور میں جہا ں باغات ختم ہو رہے ہیں اور شہریو ں کو شہری تفریحی کے مواقع نہ ہو نے کے برابر ہیں وہا ں رہی سہی کسر پارکوں کے انٹری ٹکٹوں اور نا مناسب سہولیات نے پو ری کر دی ہے پشاور شہر میں واقع پا رک انتظامیہ کی غفلت کے ویرانی کی صورت پیش کر رہے ہیں۔ پارک میں خود ساختہ ریٹ مقرر ہو نے سے شہری پارک میں جانے سے کترانے لگے۔انٹری ٹکٹ ، جھولے اور پا رکنگ کے من مانے نرخ وصول کئے جا رہے ہیں کو ئی پرسان حال نہیں ہے ۔اہلیان پشاور نے اعلیٰ حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ دہشتگردی سے متاثرہ شہر کے باسیوں کو تفریح کے موثر مواقع فراہم کئے جائےنگے