شہزادہ فہد
ملک میں جاری دہشت گردی سے جہاں عوام کو بھاری نقصان برداشت کرنا پڑا ہے وہاں خیبر پختون خواہ پولیس کی قربانیاں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ایک طرف دہشت گردی کا نشانہ بنے والے کسی کے پیارے ہوتے ہیں تو وہاں دوسری طرف وردی میں ملبوس خیبر پختون خواہ کے جوان بھی کسی کے بیٹے ، بھائی اور شوہر ہوتے ہیں جو سخت ترین ڈیوٹی کر کے عوام کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہو جاتے ہیں۔ خیبر پختون خواہ پولیس پاکستان میں تمام صوبوں کی پولیس پرسبقت رکھتی ہے جس کی حقیقت پر چشم پوشی نہیں کی جاسکتی چودہ سالوں سے جاری دہشت گردی میں کے پی پولیس کے گیارہ سو سے زائد پولیس اہلکا ر افسران جس میں اعلیٰ افسران سے کانسٹیبل تک نے ملک کی سلامتی کے لئے جان کی قربانی پیش کر چکے ہیں اور دو ہزار سے زائد پولیس اہلکار زخمی ہوچکے ہیںیہ اعداد و شمار پاکستان میں تعینات تمام پولیس فورس میں سب سے زیادہ ہے۔ 2011 سے لے کر 2015 تک خیبر پختون خواہ پولیس پاکستان کی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے اور دہشت گردوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی ہے 2009 میں ہونے والے آرمی کاسوات آپریشن کے پی پولیس کے لئے سب سے بھاری رہا جس میںدو سو سے زائد نو جوانوں شہید ہوئے خیبر پختون خواہ جس کے طول و عرض میں فاٹا ایجنسیاں موجود ہیں پاکستان میں سب سے زیادہ متاثر ہوا۔خیبر پختونخواہ پولیس وطن عزیز کی خاطر قربانیوں میں اول نمبرپر ہے جہاں پولیس کے سیکڑوں جوان اپنی جان کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں وہاں خیبر پختون خواہ پولیس کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے جبکہ وفاق کی جانب سے بلوچستان اور گلگت بلتستان کو پولیس کے لئے حساس علاقہ (ہارڈ ایریا) قرار دیا گیا ہے پی ایس پی یا پی اے ایس پولیس آفیسر کی ترقی کے لیے تین سال ہارڈ ایریا میں ڈیوٹی سرانجام دیتی لازم ہوتی ہے جوکہ ہر اعلی آفیسر اپنی ترقی کے لیے ہارڈ ایریا میںڈیوٹی دیتاہے ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ نا تو بلوچستان میں حالات خیبر پختون خواہ کی طرح نازک ہیں اور ناہی گلگت بلتستان میں حالات خراب ہیں حساس علاقہ( ہارڈ ایریا) قرار دیئے جانے کے بعد تمام آفیسرز اپنی خدمات صوبے کو پیش کر دیتے ہیں اعلیٰ پولیس افسران کی تعیناتی سے جہاں حالات بہتر ہوتے تو وہاں صوبے میں امن وامان کی صورت حال بھی اطمینان بخش رہتی ہے۔اس کے بر عکس خیبر پختون خواہ جہاں امن کی صورت حال روز بہ روزبد سے بدتر ہو رہی ہے وہاں پولیس کے اعلیٰ افسران کی کمی محکمہ پولیس خیبر پختون خواہ امن کے قیام کے لیے درد سر بنی ہوئی ہے۔سنٹرل پولیس آفیس کے مطابق صوبے کو محکمہ پولیس کو 56سے زائد اعلیٰ ترین آفیسرز کی کمی کاسامنہ ہے تفصیلات کے مطابق18گریڈ کے منظور شدہ 74آفیسر میں 44 آفیسرز صوبے میں خدمات انجام دے رہے ہیں جبکہ 30 افسران کی کمی کا سامنہ ہے اسی طرح 19 گریڈ کے منظور شدہ 33 اعلی افسران میں 21 افسران موجود ہیں جبکہ12 اعلی آفیسرز کی کمی کے مسائل درپیش ہیں ۔گریڈ20 فل ڈی آجی میں 18 منظور شدہ سیٹوں پر صرف 5 ڈی آئی جیز خدمات سر انجام دے رہے ہیں جبکہ13 ڈی آجیز کی کمی کے پیدا ہونے والے مسائل بھی کم نہیں ہیں صوبے کے معاملات کو دیکھنے کے لیئے ایڈیشنل آجی کی منظور شدہ 5 سیٹوں پر سرف 2 ایڈیشنل آجیز کام کر رہے ہیں جبکہ 3 سیٹیںتاحال خالی ہیں ۔صوبے میں امن و امان کی صورت حال یقینی طور پر اعلی افسران ہی سنبھال سکتے ہیں موجودہ حالات میں صوبے جونیئر افسران خالی سیٹوں پر تعینات کئے گئے ہیں جس کی وجہ سے حالات میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے اور سینئر آفیسرزکی پوسٹوں پر جونیئرافسران کی تعیناتی سے مسائل حل ہونے کی بجائے گمبیر ہونے لگے ہیں محکمہ پولیس خیبر پختون خواہ میں مجموعی طور پر 56 اعلی افسران کی کمی ہیپ ۔دہشت گردی سے متاثر صوبہ جہاں حالت جنگ میں ہو آئے روز پولیس اہلکار و افسران کو ٹارگٹ کر کے شہید کیا جا رہا ہو پولیس کو مراعات بھی میسرنہ ہوں تووہاں کیوں کرکوئی پولیس آفیسرزڈیوٹی کرنے کے لیئے آمادہ ہو گاحتیٰ کے خیبر پختون خواہ سے تعلق رکھنے والے افسران بھی اپنی خدمات صوبے کو پیش کرنے کے لئے تیار نہیں ہیںجو بہت بدقسمتی کی بات ہے اگر خیبر پختون خواہ کو حساس علاقہ( ہارڈ ایریا) قرار دیا جائے تو صوبے میں جاری اعلیٰ افسران کا بحران ختم ہو جائے گااور صوبے میں امن وامان کی صورت حال بھی بہتر ہوگی خیبر پختون خواہ کو حساس ایریا قرار دیئے جانے پرموجودہ حالات میں ڈیوٹی دینے والے اعلی افسران کو بھی فائدہ ہو گا جو کے سخت حالات میں اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں اور خیبر پختون خواہ سے تعلق رکھنے والے افسران بھی صوبے میں خدمات پیش کرینگے اوراپنی تمام ترتوانائیاںصوبے میں امن و امان کی بحالی کے لئے بروئے کار لائیں گے وفاق کو چاہیے کے خیبر پختون خواہ میں امن کی بحالی کے لئے سنجیدہ اقدامات کرے جو کے وقت کی اہم ضرورت ہے۔
خیبر پختون خواہ سے تعلق رکھنے والے اعلی افسران پاکستان کے دیگر صوبوں میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں جبکہ دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے افسران بھی خیبرپختون خواہ آنے سے کتراتے ہیں ایک دہائی قبل اعلی افسران خیبرپختون خواہ میں تعیناتی کے لئے سفارش کر تے تھے۔ پی ایس پی اور پی اے ایس میں ٹاپ کر نے والوں کو کی اولین ترجیی تھی کہ وہ خیبرپختونخوا میں تعینات کئے جائیںلیکن حالات اس کے بر عکس ہوچکے ہیں دیگر صوبوں کے اعلی افسران یہاں آنے کی بجائے گلگت بلتستان اور بلوچستان جاتے ہیں جہاں ان کو اضافی مراعات بھی دی جاتی ہیں ۔ چیف منسٹر خیبرپختون خواہ کی جانب سے وفاقی حکومت کوافسران کی کمی کو پورا کرنے لئے خط بھی لکھا گیا ہے وفاق حکومت خیبرپختون خواہ میں امن و امان کی بحالی کے لئے خیبر پختون خواہ کو ہارڈ ایریا قرار دینا ہوگا تاکہ صوبے میں تعینات اعلی افسران کو ان کی محنت کا ثمر مل سکے