Monthly Archives: February 2015

kpk police ko dar pish masail… wifaq ko sochna pary ga …

شہزادہ فہد

ملک میں جاری دہشت گردی سے جہاں عوام کو بھاری نقصان برداشت کرنا پڑا ہے وہاں خیبر پختون خواہ پولیس کی قربانیاں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ایک طرف دہشت گردی کا نشانہ بنے والے کسی کے پیارے ہوتے ہیں تو وہاں دوسری طرف وردی میں ملبوس خیبر پختون خواہ کے جوان بھی کسی کے بیٹے ، بھائی اور شوہر ہوتے ہیں جو سخت ترین ڈیوٹی کر کے عوام کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہو جاتے ہیں۔ خیبر پختون خواہ پولیس پاکستان میں تمام صوبوں کی پولیس پرسبقت رکھتی ہے جس کی حقیقت پر چشم پوشی نہیں کی جاسکتی چودہ سالوں سے جاری دہشت گردی میں کے پی پولیس کے گیارہ سو سے زائد پولیس اہلکا ر افسران جس میں اعلیٰ افسران سے کانسٹیبل تک نے ملک کی سلامتی کے لئے جان کی قربانی پیش کر چکے ہیں اور دو ہزار سے زائد پولیس اہلکار زخمی ہوچکے ہیںیہ اعداد و شمار پاکستان میں تعینات تمام پولیس فورس میں سب سے زیادہ ہے۔ 2011 سے لے کر 2015 تک خیبر پختون خواہ پولیس پاکستان کی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے اور دہشت گردوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی ہے 2009 میں ہونے والے آرمی کاسوات آپریشن کے پی پولیس کے لئے سب سے بھاری رہا جس میںدو سو سے زائد نو جوانوں شہید ہوئے خیبر پختون خواہ جس کے طول و عرض میں فاٹا ایجنسیاں موجود ہیں پاکستان میں سب سے زیادہ متاثر ہوا۔خیبر پختونخواہ پولیس وطن عزیز کی خاطر قربانیوں میں اول نمبرپر ہے جہاں پولیس کے سیکڑوں جوان اپنی جان کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں وہاں خیبر پختون خواہ پولیس کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے جبکہ وفاق کی جانب سے بلوچستان اور گلگت بلتستان کو پولیس کے لئے حساس علاقہ (ہارڈ ایریا) قرار دیا گیا ہے پی ایس پی یا پی اے ایس پولیس آفیسر کی ترقی کے لیے تین سال ہارڈ ایریا میں ڈیوٹی سرانجام دیتی لازم ہوتی ہے جوکہ ہر اعلی آفیسر اپنی ترقی کے لیے ہارڈ ایریا میںڈیوٹی دیتاہے ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ نا تو بلوچستان میں حالات خیبر پختون خواہ کی طرح نازک ہیں اور ناہی گلگت بلتستان میں حالات خراب ہیں حساس علاقہ( ہارڈ ایریا) قرار دیئے جانے کے بعد تمام آفیسرز اپنی خدمات صوبے کو پیش کر دیتے ہیں اعلیٰ پولیس افسران کی تعیناتی سے جہاں حالات بہتر ہوتے تو وہاں صوبے میں امن وامان کی صورت حال بھی اطمینان بخش رہتی ہے۔اس کے بر عکس خیبر پختون خواہ جہاں امن کی صورت حال روز بہ روزبد سے بدتر ہو رہی ہے وہاں پولیس کے اعلیٰ افسران کی کمی محکمہ پولیس خیبر پختون خواہ امن کے قیام کے لیے درد سر بنی ہوئی ہے۔سنٹرل پولیس آفیس کے مطابق صوبے کو محکمہ پولیس کو 56سے زائد اعلیٰ ترین آفیسرز کی کمی کاسامنہ ہے تفصیلات کے مطابق18گریڈ کے منظور شدہ 74آفیسر میں 44 آفیسرز صوبے میں خدمات انجام دے رہے ہیں جبکہ 30 افسران کی کمی کا سامنہ ہے اسی طرح 19 گریڈ کے منظور شدہ 33 اعلی افسران میں 21 افسران موجود ہیں جبکہ12 اعلی آفیسرز کی کمی کے مسائل درپیش ہیں ۔گریڈ20 فل ڈی آجی میں 18 منظور شدہ سیٹوں پر صرف 5 ڈی آئی جیز خدمات سر انجام دے رہے ہیں جبکہ13 ڈی آجیز کی کمی کے پیدا ہونے والے مسائل بھی کم نہیں ہیں صوبے کے معاملات کو دیکھنے کے لیئے ایڈیشنل آجی کی منظور شدہ 5 سیٹوں پر سرف 2 ایڈیشنل آجیز کام کر رہے ہیں جبکہ 3 سیٹیںتاحال خالی ہیں ۔صوبے میں امن و امان کی صورت حال یقینی طور پر اعلی افسران ہی سنبھال سکتے ہیں موجودہ حالات میں صوبے جونیئر افسران خالی سیٹوں پر تعینات کئے گئے ہیں جس کی وجہ سے حالات میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے اور سینئر آفیسرزکی پوسٹوں پر جونیئرافسران کی تعیناتی سے مسائل حل ہونے کی بجائے گمبیر ہونے لگے ہیں محکمہ پولیس خیبر پختون خواہ میں مجموعی طور پر 56 اعلی افسران کی کمی ہیپ ۔دہشت گردی سے متاثر صوبہ جہاں حالت جنگ میں ہو آئے روز پولیس اہلکار و افسران کو ٹارگٹ کر کے شہید کیا جا رہا ہو پولیس کو مراعات بھی میسرنہ ہوں تووہاں کیوں کرکوئی پولیس آفیسرزڈیوٹی کرنے کے لیئے آمادہ ہو گاحتیٰ کے خیبر پختون خواہ سے تعلق رکھنے والے افسران بھی اپنی خدمات صوبے کو پیش کرنے کے لئے تیار نہیں ہیںجو بہت بدقسمتی کی بات ہے اگر خیبر پختون خواہ کو حساس علاقہ( ہارڈ ایریا) قرار دیا جائے تو صوبے میں جاری اعلیٰ افسران کا بحران ختم ہو جائے گااور صوبے میں امن وامان کی صورت حال بھی بہتر ہوگی خیبر پختون خواہ کو حساس ایریا قرار دیئے جانے پرموجودہ حالات میں ڈیوٹی دینے والے اعلی افسران کو بھی فائدہ ہو گا جو کے سخت حالات میں اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں اور خیبر پختون خواہ سے تعلق رکھنے والے افسران بھی صوبے میں خدمات پیش کرینگے اوراپنی تمام ترتوانائیاںصوبے میں امن و امان کی بحالی کے لئے بروئے کار لائیں گے وفاق کو چاہیے کے خیبر پختون خواہ میں امن کی بحالی کے لئے سنجیدہ اقدامات کرے جو کے وقت کی اہم ضرورت ہے۔

خیبر پختون خواہ سے تعلق رکھنے والے اعلی افسران پاکستان کے دیگر صوبوں میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں جبکہ دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے افسران بھی خیبرپختون خواہ آنے سے کتراتے ہیں ایک دہائی قبل اعلی افسران خیبرپختون خواہ میں تعیناتی کے لئے سفارش کر تے تھے۔ پی ایس پی اور پی اے ایس میں ٹاپ کر نے والوں کو کی اولین ترجیی تھی کہ وہ خیبرپختونخوا میں تعینات کئے جائیںلیکن حالات اس کے بر عکس ہوچکے ہیں دیگر صوبوں کے اعلی افسران یہاں آنے کی بجائے گلگت بلتستان اور بلوچستان جاتے ہیں جہاں ان کو اضافی مراعات بھی دی جاتی ہیں ۔ چیف منسٹر خیبرپختون خواہ کی جانب سے وفاقی حکومت کوافسران کی کمی کو پورا کرنے لئے خط بھی لکھا گیا ہے وفاق حکومت خیبرپختون خواہ میں امن و امان کی بحالی کے لئے خیبر پختون خواہ کو ہارڈ ایریا قرار دینا ہوگا تاکہ صوبے میں تعینات اعلی افسران کو ان کی محنت کا ثمر مل سکے10338716_770723729682088_4104551166527158926_n

4 years child kidnap from ps pahari pura

شہزادہ فہد۔۔۔۔۔
یہ 16 دسمبر کی شام تھی جب رحمت اللہ اپنی شہد کی دکان میں کام کرنے میں مصروف تھا اچانک اس کے گھر سے فون آیا کہ اس کے چار سالہ بچے کو کسی نے اغواء کر لیا ہے تو ایسے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے اس کے بدن سے کسی سے روح زبردستی کھینچ لی ہو۔یکدم سے وہ زمین پرگر پڑا،ہوش میں آتے ہی وہ گھر پہنچا جہاں اسے اس کی بیوی نے بتایا کہ تین افراد پر مشتمل ایک گروہ نے ان کے گھر کے دروازے پر دستک دی۔ اور کہا کہ چاول لے لوتب اس نے ڈرکے مار ے دروازہ نہیں کھولا اکیلے ہونے کے ڈر سے وہ حواس باختہ ہوچکی تھی تا ہم ا سی دوران بیس منٹ گزر چکے تھے اورایک بارپھر دروازے پر دستک ہوئی۔دروازے کے پیچھے سے ایک بچی کی آواز آئی ،پوچھنے پرمعلوم ہوا کہ وہ پڑوسیوں کی بچی ہے جو معمول کے مطابق کوڑا کرکٹ لیجانے آتی ہے۔دروازہ کھولتے ہی اسے جھٹکامحسوس ہوا،تین افرا دجو کہ پہلے ہی سے اسی تاک میں تھے کہ کسی طرح سے دروازہ کھلے اور ہم اندرداخل ہوں او ر ایسا ہی ہوا ،دروازہ کھلتے ہی وہ تینوں جوکہ مسلح بھی تھے ہمارے گھر میں داخل ہوئے اورمیرے دوسالہ بیٹے مصطفی کودبوچ لیا۔دوسرے لمحے انہوںنے دیکھا کہ مصطفی کا بھائی سہیل جو عمر میں اس سے بڑا ہے کواٹھا کر بھاگنے لگے ۔ان کے اس اقدام پرگھر میں کہرام مچ گیا گھر میں چیخ و پکار شروع ہوگئی تھی ملزم وارادات کے بعد فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔جب رحمت اللہ نے اپنی بیوی کی زبانی یہ ساراقصہ سنا تو باہر محلے میں دیوانہ وارچیخنے لگااور محلے والوں کوبرا بھلا کہنے لگا کہ تم میں سے مرد کوئی نہ تھا جو میرے بچے کو ان سے بچاتا ۔اسی طرح دن گزرتے رہے اور ہر دن اس کے گھر میں ماتم ہوتا ۔ ڈیڑھ ماہ کا عرصہ گزر چکا تھا رحمت اللہ اپنے گھروالوں کو تسلی دیتا رہا۔ اس کی بیوی دیوانوں کی طرح اپنے بچے کو پکارتی اور یاد کرتی رہی ۔آخر کا راسے ایک نامعلوم نمبرسے ایک کال موصول ہوئی جس میں نامعلوم ملزمان نے اس سے اس کے بچے کی رہائی کے لئے دوکروڑ کی رقم کا مطالبہ کیا۔رحمت کے مطابق میں اپنے بچے کی خاطراپنا سب کچھ بیچنے کیلئے تیار تھا۔ اسی دوران اس نے پولیس کو بھی واقعے کی اطلاع دی تھی، وہ بے خبر اپنے بچے کی یاد میں گم سم رہتا تھاکہ ایک دن اسے پولیس کی جانب سے اطلاع ملی کہ اس کے بچے کو بازیاب کرالیا گیا ہے۔یہ دن اس کے لئے عید کاد ن تھا وہ دن آہ گیا تھا جب وہ اپنے بچے کو بھر سے اپنی باہنوں میں اٹھا سکتا تھا جیسے ہی وہ اپنے بیٹے کے پاس قریب پہنچا بیٹا نے اسے پہچانے سے انکار کر رہا تھاڈیڑھ ماہ گھر سے باہر رہنے کی وجہ سے وہ اپنے باپ کی نہیں پہچان رہا تھا

اے ایس پی فقیر آباد بلال فرقان کا موقف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے ایس پی فقیر آباد فرقان بلال کے مطابق ملزموں کی گرفتاری کے لئے پولیس نے 27 چھاپے مارے ملزم بہت شاطر تھے۔اخر کار ملزم قانون کے شکنجے میں آہ چکے تھے پولیس نے یوسف آباد میں مکان پر چھاپہ مار کر دو اغواء کاروں کو گرفتار کرلیاجبکہ گروہ کے سرغنہ اور پرائمری سکول کی خاتون ٹیچر سمیت دیگر 4 اغواء کار فرار ہونے میں کامیاب ہوچکے ہیں جو اپنے گرفتار ساتھیوں کی رہائی کیلئے پولیس کو سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دے رہے ہیں پولیس نے دیگر ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر کے انکی گرفتاری کیلئے کوششیں شروع کردی ہیں اے ایس پی فرقان بلا ل نے مزید کہا ملزموں نے چند دنوں بعد ملزمان نے مغوی کے والد سے بچے کی رہائی کیلئے 2کروڑ روپے تاوان کا مطالبہ کردیا تھا جبکہ نہ دینے کی صورت میں بچے کو جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دیتے رہے ۔پولیس نے دو اغواء کار وںزبیر ولد بخت لعلی سکنہ ٹیلہ بنداوروقار حسن ولد گل حسن سکنہ شگئی ہندکیان کو گرفتار کرلیاہے جنہوں نے تفتیش کے دوران اپنے دیگر ساتھیوں سہیل،شہزاد،بلال،مسماة سیمااورکبیر خان کے نام اگلتے ہوئے بتایا کہ مغوی بچہ ان کے قبضہ میں ہے جس پر پولیس نے ان کے دیگر ساتھیوں کی گرفتاری اور بچے کی بازیابی کیلئے چھاپے مارنا شروع کردیا پولیس کی جانب سے مسلسل چھاپوں کی وجہ سے ملزمان نے اپنی گرفتاری کے ڈر سے مغوی بچے سہیل کو بغیر کسی تاوان وصول کئے علاقہ یوسف آباد میں چھوڑ دیا جسے انہوں نے تحویل میں لے کراس کے والدین کے حوالہ کردیا اے ایس پی فرقان کے مطابق فرار ہونے والے ملزمان میں پرائمری سکول کی خاتون ٹیچر مسماةسیما بھی شامل ہیں جو اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ اس وقت قبائلی علاقہ میں پناہ لئے ہوئے ہیں جن کی جدید سائنسی خطوط پر نشاندہی کی گئی ہے اور عنقریب انہیں بھی جلد گرفتار کرکے قانون کے کٹہرے میں کھڑا کردیا جائے گا ۔

بازیاب ہونے والے بچے کے والد کا موقف ۔۔
بازیاب ہونے والے 4 سالہ سہیل کے والد نے کہا ہے کہ لخت جگر کے اغواء ہونے کے بعد راتوں کی نیند اڑ چکی تھی اپنی بیوی کو تسلی دیتا رہا لیکن خود اپنا غم دل میں دبائے رکھا گھر والوں کے حوصلے کے لئے ان کے سامنے کبھی نہیں رویا یہاں تک کہ آنکھوں کے پتلوں میں آنسوں دب کر رہ گئے ڈاکٹروں نے مشورہ دیا ہے کہ جلد ازجلد آنکھوں کا آپریشن کیا جائے اگر اس میں تاخیر کی گئی تو آنکھ بینائی سے محروم ہوجائے گی مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ میرے بیٹے کو اغواء کاروں کے چنگل سے باحفاظت بازیاب کر وایا گیا یہ دن میں زندگی کا اہم تر ین دن تھا

ایک وہ معلمہ بھی تھی کہ جس نے سانحہ پشاور اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے سرخروہوگئی اور ایک یہ معلمہ ہے جس نے چندروپوں کی خاطراپنے پیشے کو سربازا رنیلام کردیا
کسی بھی معاشرہ کی ترقی و خوشحالی کیلئے جتناکردارایک استا دکا ہوتا ہے اتنا شاید ہی کسی اور کا ہواور چونکہ ہم ایک اسلامی معاشرہ کے باسی ہیں اس لئے ہمیںاپنے آخر ی نبی حضرت محمد ۖ کے اس ارشاد کی طرف بھی غور کرنا ہوگاجو انہوںنے فرما کے ہمارے لئے آسان کردیا ارشاد فرماتے ہیں”کہ بے شک میں معلم بنا کربھیجا گیا ہوں”۔آپۖ کے اسی ارشاد کے پیش نظرایک مسلمان استاد کے فرائض سامنے آتے ہیں ا س پر با ت کرنا بہت ہی آسان ہے۔کیونکہ جب ہمارے پیارے نبی ۖ ہی معلم بنا کر بھیجے گئے او ر جنہوںنے عرب کی جاہل او رگری ہوئی قوم کوآسمان کی بلندیوں پر اپنے بہترین اخلاق کی بدولت پہنچا دیا جس کی مثال قیامت تک کے انسانوں کے لئے مشعل راہ ہے۔او ربطورمسلمان اگر ہم بھی معلمی جیسے پیغمبری پیشے کو اپناتے ہیں تو ہمیں بھی ان صفات کو اپنے اندر لانے کی سعی کرنی ہو گی جو صفات ایک معلم کے اندرمعلمانہ صفات بناتی ہیں اور جس کی وجہ سے ایک معلم اپنے شاگردوں کی تربیت کرکے انہیں قوم کے مستقبل کے لئے تیار کرتاہے۔ لیکن اگرمعلم ہی اپنے فرائض سے اغراض کرکے معاشرہ کو ترقی کی بجائے تنزلی عطا کرے تو یقینامعاشرہ جلد یا بدیراپنی ساخت کھو بیٹھتا ہے ۔اورجیساکہ پشاورحالیہ واقعہ کہ جس میں ایک معصوم نونہال کے اغواء میں ایک معلمہ ملوث پائی گئی کاکرداراگرمعاشرہ دیکھتا ہے تو یقینالوگوں اور خاص طورسے بچوں کے اذہان میں یہ بات بیٹھ جائے گی کہ ہمارا آج کا معلم ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ایک طرف وہ معلمہ تھی جس نے سانحہ پشاورمیں اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے سرخرو ہوگئی او رایک یہ معلمہ ہے جس نے روپوں کی خاطراپنے پیشے کو سربازارنیلام کردیا۔ffffffffffffffffff