Monthly Archives: November 2015
A story of a tomb in peshawar
شہزادہ فہد ۔۔۔۔
پشاور شہر کے معروف اور تاریخی اہمیت کے حامل وزیر باغ روڈ جو شہر کے جنوب میں واقع ہے پر ایک نہایت تاریحی گنبد جو ”بیجو کی قبر“ کے نام پر مشہور ہے اب جگہ جگہ سے ٹوٹ چکا ہے اور آہستہ آہستہ یہ تاریحی ورثے کا نام و نشان ختم ہو نے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ آج بھی یہ برج سیا حوں کو اپنی طرف راغب کر تا ہے ۔ مورخین کے مطابق شیح حبیب بابا کے مزار کے باہر ایک نہایت تاریحی گنبد صدیوں پہلے بنایا گیا تھا آج بھی یہ برج سیاحوں کو اپنی طرف مرغوب کرتی ہے۔یہ برج اپنے پس منظر میں ایک درانی بادشاہ کی رومانوی داستان رکھتا ہے۔مگر اس کی حقیقت کیا ہے اس کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ اور حکومتی عدم دلچسپی کے باعث تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے جس کی وجہ سے تاریخ سے محبت اور دلچسپی رکھنے والے لوگ ا س سے نہایت پریشان ہیںکیونکہ اس کے مٹنے سے تاریخ کا ایک زندہ اور توانا باب ختم ہوگا۔اس قبر کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ تیمو ر بادشاہ جو احمد شاہ ابدالی کا بیٹا تھا وہ اپنے باپ کے وفات کے بعد 1773 عیسوی کو تحت شاہی پر بیٹھ گیا۔اس کی ایک بیوی مغل شہزادی تھی اس کی خدمت کیلئے شاہی محل میںا یک لونڈی تھی جو اپنے قدرتی حسن کے ساتھ ساتھ نہایت ذہین اور فطین بھی تھی۔اس لونڈی کا اصل نام بیگم جان تھا جس نے اپنی ذہنیت اور قابلیت کی وجہ سے بادشاہ کے ہاں بہت عزت پائی تھی اور پورے محل میں اس کی بہت عزت کی جاتی تھی۔اپنے دور حکومت میں بادشاہ اکثر ریاستی اور حکومتی معاملات میں اس سے مشورے بھی طلب کرتے تھے۔تیمور بادشاہ کے ساتھ بیگم جان کی اتنی قربت اس کی مغل بیوی اور دربار کے دیگر لوگوں کیلئے ناقابل برداشت تھااور اس کی وجہ سے وہ بیگم جان سے حسد کرنے لگے بیگم جان کی حاکم وقت بادشاہ تیمور کے ساتھ اس قدر قربت نے بادشاہ کی ملکہ اور دیگر ملازمین کے دل میں انتقام کی آگ بھڑکادی۔یہی وجہ ہے کہ ملکہ اور دیگر ملازمین اسے بیگم جان کی بجائے ”بی بو“ کہہ کر پکارتے تھے اور رفتہ رفتہ ان کا نام بی بو سے” بی جو“ پڑ گئی۔ بی جو پشتو زبان کے لفظ ”بی زو“ یعنی بندر سے ملتا جلتا ہے اور اسے حسد کی وجہ سے اس نام سے پکارتے تھے ۔مغل خاندان کے اکابرین بھی بادشاہ اور بیگم جان کے درمیان اس قدر گہرے تعلقات کو اپنے لئے خطرہ ہ محسوس کرتے تھے اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ بیگم جان اپنی ذہن اور عقل سے بادشاہ کو مغل خاندان کے ہر قسم کے سازشوں سے بچانے کے مشورے دیتی تھی اور ان کو بچانے کیلئے ضروری قدم اٹھاتی اسی وجہ سے تمام لوگ کوشش میں لگے تھے کہ کسی طریقے سے بیگم جان کو اپنے راستے سے ہٹالے۔مغل اکابرین نے بادشاہ کی ملکہ کے ہاں ایک خادمہ تعینات کی جو ہر وقت اس کی دل میں بیگم جان کے خلاف نفرت بھڑکاتی تھی بادشاہ کی ملکہ اب اس بات پر تیار ہوئی کہ بیگم جان کو ہمیشہ کیلئے اپنے راستے سے ہٹادےا اپنے اس مذموم منصوبے کو کامیاب بنانے کےلئے خادمہ نے ایک مشروب میں زہر ملا کر بیگم جان کو پلا دیاجس کی وجہ سے وہ ہمیشہ کیلئے آبدی نیند سوگئی بادشاہ نے اس وفادار لونڈی کی قبر پر ایک نہایت شاندار گنبد اور برج تیار کیا جو ایک لازوال تاریحی اور رومانوی داستان کے طور پر پشاور کے ثقافتی منظر کو پیش کرتی ہے
2۔۔۔پشاوروزیر باغ روڈ پر واقع یہ گنبد اب وقت کے ساتھ ساتھ اس قدر مٹ چکا ہے متعلقہ محکمہ کی عد م دلچپی کے باعث آنے والی نسل وفا کے اس پیکر کا نام ونشان مٹ کر صرف کتابوں میں اس کے بارے میں پڑھیں گے اور تاریخ کا ایک نہایت اہم باب ختم ہو نے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔برج کے ساتھ دو چھوٹی چھوٹی قبریں بھی تھیں جن کے نشانات شاید اب نہیں رہے یہ بیگم جان کی پالی ہوئی مرغیاں تھی اس نے وصیت کی تھی کہ اس کے مرنے کے بعد ان مرغیوں کو بھی ذبح کرکے اس کی قبر کے ساتھ دفنائی جائے لینڈ مافیا اس تاریحی قبرستان اور گنبد کے احاطے پر قبضہ جمانے کی کوشش میں لگے ہیںجس میں وہ کچھ حد تک کامیاب بھی ہوچکے ہیں مقامی معزرین بزگورں کا کہنا ہے کہ یہ نادرشاہ کے وقت کا نہایت تاریحی اہمیت کا اثاثہ ہے جو حکام کی غفلت کی وجہ سے اب ختم ہورہا ہےمقامی لوگ صوبائی حکومت اور متعلقہ اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس تاریخی ورثے کو نئے نسلوں کیلئے محفوظ بنانے کیلئے وفا کے اس پیکر کو بچانے کے لئے ضروری اقدامات ا ٹھائے تاکہ ایسا نہ ہو کہ ان کی تصویریں صرف کتابوں میں ملے۔
3۔۔۔ محمہ آثار قدیمہ کے مطابق 1920 سے قبل جو بھی پرا نی عمارت ہو اسے ورثہ قرار دیا جا سکتا ہے پشاور میں درجنوں قدیم اور تاریخی عمارتیں موجود ہیں ۔جن میں گورگٹھری ، محلہ سیھٹیان ، مسجد مہابت خان ، پلوسی پیران ، کو ٹلہ محسن خان میں موجود مقبرے ، اور لنڈے ارباب میں قدیمی مقرے شامل ہیں ان قدیم تاریخی مقامات کو محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے ورثہ قرار دیا گیا لیکن ابھی درجنوں ایسی عمارتیں اور مقامات جو کہ حکومتی عدم توجہ کے باعث ختم ہو نے کے قریب ہیں ان میں چوہا گجر میں موجود” بو لی مسجد“ چوہا گجر میں موجود ”مغل پل“ ”دلدار مسجد “ اور وزیر باغ میں موجود بیجو قبر حکومتی نظروںسے اوجھل ہے ۔
mughal empire in peshawar is going to death pti
سروے رپورٹ ۔۔
پشاور(شہزادہ فہد )چمکنی کے قریب گاو¿ں چوہا گوجر میں مغل دور حکومت میں بنائی گئی مسجد رفتہ رفتہ ایک سست موت مر رہی ہے۔ مغل دور میں تعمیر کی گئی یادگار کی بحالی اور تحفظ کےلئے خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے اقدامات ان کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے ۔مقامی لوگوں کیجانب سے اس مسجد کو ” بولی “ طور پر جانا جاتا ہے ۔ زرعی کھیتوں اور باغات کے درمیان کھڑی یہ مسجد کے قریب ہر سال آبادی میں جکڑی جا رہی ہے۔ حکومت کی عدم توجہی کے باعث مقامی لوگوں کی جانب سے مسجد کو ختم کر نے کی کوششیںکی جا رہی ہیں۔اور اس حقیقت کو پس پردہ رکھا جا رہا ہے کہ مسجد ایک تاریخی حیثیت رکھتی ہے۔مسجد مغل طرز تعمیر کا ایک بہترین شاہکار ہے ۔مسجد کی تعمیر وزیری اینٹوں اور چونے کے پتھر وں سے کی گئی ہے۔مورخین کے مطابق یہ مسجد جہانگیر کے دور میں 17 صدی کے دوران تعمیر کی گئی ہے اور اس مسجد کی تعمیر کا مقصد برصغیر کے دیگر حصوں میں وسطی ایشیا اور افغانستان سے آنے والے مسافروں کی سہولت کے لئے تھا۔مسجد کی اونچائی میں 12 فٹ، اور چوڑائی 15سے 30 فٹ ہے مسجد کے مرکز میں ایک بڑا محراب ہے جو کہ خستہ حالی کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور ڈھانچے پر موجود عمارت کے چاروں کو نوں پر میناروں کا نام و نشان غائب ہو چکا ہے جو کہ کچھ عرصہ پہلا موجود تھے ۔ کچھ لو گوں کو خیال ہے کہ اس مقام پر مسجد کے سامنے ایک بڑا پانی کا کنوں تھا جس سے وضو کے لئے پا نی استعمال کیا جاتا تھا اور مسجد کے کے سامنے ایک کھلی زمین بھی تھی جس میں مسافر آرام کر تے تھے ۔
2۔۔۔
گاوں چوہا گجر میں موجود قدیم بو لی مسجد محکمہ آثار قدیمہ کی نظروں سے اوجھل ہے ۔ آرکیالوجی ایکٹ کے مطابق 70 سال سے زائد عرصہ گزر جا نے والی عمارتیں تاریخ کا حصہ بن جا تی ہیں پشاور میں بیسیوں تاریخی عمارتیں ہیں جو کہ خستہ حال ہیں حکومت خیبر پختون خوا کی جانب سے صرف زبانی جمع خرچ پر کا م کیا جا رہا ہے ۔ حکومت کی جانب سے شہر کے گرد وال سٹی اور دیگر قدیم عمارتوں کو محفوظ کر نے کے باتیں کی جا تی ہیں لیکن تاحال ان منصوبو ں پر کو ئی عمل درآمد نہ ہو نے کے برابر ہے چوہا گجر میں واقع بو لی مسجد کی کی بحالی کے لئے کو ئی بھی ذمہ داری قبول نہیں ر ہا اور متعلقہ حکام کا بولی مسجد کی اہمیت کو نظر انداز کر نا صوبے میں تبدلی کے دعوﺅں کی نفی کر تا ہے
3۔۔۔۔
صوبا ئی دارلحکومت پشاورکا شما ر ا ان شہر وں میں ہوتا ہے جہاں مختلف ادوار میں تہذ بیں پنبتی رہی ہیں۔ پشاور دنیا کا واحد شہر ہے جو کہ ہر وقت آباد رہا ہے ۔جس کے خدوخا ل آج بھی شہر اور گردونواح میں موجود کھنڈارات میں محسوس کئے جا سکتے ہیں یہ کھنڈارات ہمیں اس تاریخی شہر کی ہزاروں سال تہذیب اور اس میں بسنے والی ہنر مندوںں کی ؑظمت کا پتا دیتی ہے ۔ کہتے ہیں کہ جس قوم میں کھنڈارات نہیں ہو تے ان کی تاریخ نہیں ہو تی ۔ صوبا ئی حکومت پشاور سمیت صوبے بھر میں تمام کھنڈارت کی بحالی کےلئے اقدامات کرے تاکہ ہمارا قومی ورثہ محفوظ رہے ۔