Tag Archives: kpk

Khyber pukhtoon khwa Culture Policy

 

شہزادہ فہد
خیبر پختونخوا کلچر پالیسی نہ بن سکی،سنسر شپ بورڈ منصوبہ بھی کھٹائی میں پڑگیا
ء2010 میں اٹھار ویں ترمیم کے بعد صوبے میں کلچر کے فروغ کےلئے پالیسی بنانے کا فیصلہ کیا گیا، 2011 ءمیں صو با ئی اسمبلی میں ڈرافٹ پیش کیا گیا جو کہ تاحال زیرگردش ہے
ء2013 میں تحریک انصا ف کی حکومت کا قیام بھی صوبے میں کلچر پالیسی کےلئے سود مند ثابت نہ ہو سکا، سنسر بورڈ کےقیام کے لئے دو سال سے صرف اجلاس ہی منعقد کئے گئے

خیبر پختونخوا اسمبلی سے ڈیڑھ سو کے قریب بل منظور کروانے والی تحریک انصاف کی حکومت چار سالوں میں کلچر پالیسی نہ بناسکی ، اٹھارویں ترمیم میںاختیار ملنے کے باوجودخیبر پختونخوا میں کلچر پالیسی کا قیام سر خ فیتے کی نظر ہو گئی ، کلچر پالیسی کے ساتھ حکومت کا اعلان کر دہ سنسر شپ بورڈ کے قیام کا منصوبہ بھی کھٹائی میں پڑ گیا ہے ، 2010 ءمیں اٹھا ویں ترمیم کے بعد خیبر پختونخوا میں اے این پی اور پیپلز پا رٹی کی مخلوط حکومت میں فیصلہ کیا گیا کہ صوبے میں کلچر کے فروغ کےلئے پالیسی بنائی جا ئے اس ضمن میں 2011 ءمیںصو با ئی اسمبلی میں ڈرافٹ پیش کیا گیا جو کہ تاحال گردش میں ہے ، 2013 ءمیں تحریک انصا ف کی صوبے میں کامیابی بھی کلچر پالیسی کےلئے سود مند ثابت نہ ہو سکی ، موجودہ حکومت دوسالوں نے صوبے میں سنسر بو رڈ کے قیام کے لئے مشاورتی اجلاس کا انعقاد کررہی ہے ، دوسال قبل کلچر پالیسی اور سنسر بورڈ کے حوالے سے ایک اجلاس منعقد کیا گیا تھا جس میں سیکرٹری محکمہ سیاحت ، ثقافت ، کھیل و آثار قدیمہ اعظم خان، ایڈیشنل سیکرٹری محمد طارق ،ڈپٹی ڈائریکڑ کلچر اجمل خان ،مسرت قدیم ، شوکت علی ، رحمت شاہ سائل ، طارق جمال ، فلم ڈائریکٹر قیصر صنوبر ، مشتاق شباب ، نجیب اللہ انجم سمیت پروفیسرز، فن موسیقی ، ڈائریکٹر ، پروڈیوسرز ، ثقافت سے منسلک افراداور سول سوسائٹی کے عہدیداران نے کثیر تعداد میں شرکت کی تھی، سنسر شپ بورڈ کے قیام پر شرکا ءکامطالبہ تھا کہ بل پیش کر نے سے قبل پالیسی بنائی جا ئے تاکہ ایک ڈائر یکٹر فلم یا ڈارمہ بنانے سے قبل تمام تر چیزوں کا خیال رکھے اور فلم سنسر بورڈ کو انڈسٹری کو درجہ دیا جائے گا تب ہی یہاں ترقی ممکن ہو گی، اجلاس سیکرٹری محکمہ سیاحت ، ثقافت ، کھیل و آثار قدیمہ اعظم خان نے فلموں اور ڈراموں کے حوالے سے سنسر بورڈ کا قیام کووقت کی اشد ضرورت قرار دیا تھا، ذرائع کے مطابق دو سالوں سے متعدد بار میٹنگز کے انعقاد اور حکومتی عدم دلچسپی کے باوجود تاحال اس پر کوئی عمل درآمد نہ ہوسکا ،فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے صدارتی ایواڈ یافتہ اداکار نجیب اللہ انجم نے بتایاکہ کلچر پالیسی خیبر پختونخوا میں محکمہ ثقافت کا وجود بے مقصد ہے ، کلچر پالیسی اور سنسر بورڈ نہ ہو نے کی وجہ سے خیبر پختونخوا میں انڈسٹری ختم ہو کر رہ گئی ہے ، سی ڈی ڈراموں میں فحاشی و عریانی نے معاشرے پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں ، ان کا کہنا تھا کہ کلچر پالیسی اور سنسر بورڈ کے قیام کے حوالے سے اپنی تجاویز سیکرٹری کلچر کو بھیجی تھی تاہم کو ئی رسپونس نہیں آیا اور آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں کو ئی اطلاعات نہیں دی گئی ،اس حوالے سے معروف اداکار باطن فاروقی کا کہنا تھا کہ کلچر پالیسی کے قیام کےلئے حکومتی سنجیدگی سے کام لینا ہو گا ، ان کا کہنا تھا کہ دیگر شعبوں کی طرح فنکاروں کا محکمہ کلچر کا انتظامی دائر ہ کار فنکاروں ، گلوگاروں اور ہنر مندوں کے حوالے کیا جائے تاکہ وہ فنون لطیفہ کے حوالے سے قانون سازی میںاپنا کردار ادا کر سکیں ، کسی بھی سرکاری و غیر سرکاری محکمے کےلئے پالیسی ہونا لا زم وملزوم قرار دیا جا تا ہے ، پالیسی سے محکموں کی کا رگردگی اور ان کے اختیار کا تعین کیا جا سکتا ہے، خیبر پختونخوا میں کلچر پالیسی نہ ہو نے سے فلم میں سنسر شپ ، کا پی رائٹ اور دیگر مسائل کے ساتھ ڈراموں میں پھیلا ئی جا نے والی فحاشی پر قابو پایا جاسکتا ہے ، خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت نے چار سالوں کے دوران 144 بل منظور کروائے ہیں جبکہ کلچر پالیسی اور اور سنسر شپ بورڈ کے قیام کے حوالے سے کو ئی بل نہیں پیش کیا جا سکا ہے ،اس حوالے سے ڈائریکٹر کلچر خیبر پختونخوا اجمل خان نے بتایا کہ کلچر پالیسی کے حوالے یونیسکو کی جانب سے پالیسی کےلئے سمت کا تعین کیا گیا ہے کہ لوکل سطح پر فنون لطیفہ سے وابسطہ افراد کے ساتھ میٹنگ اور تقاریب کا انعقاد کیا جا رہا ہے ان کا کہنا تھا کہ عنقریب صوبے کے عوام کو نئی کلچر پالیسی دی جائے گی۔

culture 2

Woman Harassment In Khyber Pukhtoonkhwa

شہزادہ فہد

خیبر پختونخوا میں خواتین کو کام کے جگہوں پر ہراساں کرنے کے خلاف شکایات کے ازالے کے لئے محتسب موجود نہ ہو نے سے صوبے بھر میں خواتین عدم تحفظ کا شکار ہیں ، غیر سرکاری اعداد شمار کے مطابق خیبرپختونخوا میں 2015سے ابتک مختلف نجی اور سرکاری اداروں میں 500سے زائد خواتین کو جنسی ہراساں کرنے کے کیسز سامنے آئے ہیں جس میں سب سے زیادہ محکمہ تعلیم اور صحت سے کیسز رجسٹرد ہوئے صرف پشاور یونیورسٹی سے300سے زائد خواتین نے ہراسمنٹ کے کیسز رجسٹر کیے جا چکے ہیں جبکہ دوسری جانب خواتین کو تحفظ فراہم کرنے والی محتسب کی نشست گزشتہ سات سالوں سے خالی ہے، ایکٹ کے مطابق ہر ادارے میں ہراساں کئے جانے کے خلاف کمیٹی لازمی قرار دی گئی جس میں ایک خاتون کی نمائندگی بھی ضرروی ہے تاہم صوبے بھر میں سرکاری و نجی اداروں میں کمیٹی کا تصور ہی نہیں ہے، تھانہ کلچر کی وجہ سے ہراساں کی جانے والی خواتین پولیس کو رپورٹ درج کروانے کی بجائے خاموشی اختیار کرلیتی ہیں ، مارچ 2010 میں وفاقی حکومت نے کام کے جگہوں پر خواتین کو تحفظ فراہم کرنے اور خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف کارروائی کے بل کو منظور کیا تھا جس کے بعد سے وفاق، پنجاب اور سندھ میں محتسب کو مقرر کیا گیا ہے لیکن خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں محتسب موجود نہیں ہے، سزا کا عمل تیز نہ ہونے سے صوبے بھر میں خواتین کو ہراساں کئے جانے کے واقعات میں روز نہ روز اضافہ ہورہا ہے ،اور واقعہ میں ملوث ملزموں کوشہہ مل رہی ہے،وفاقی حکومت کی جانب سے سات سال قبل خواتین کو کام کی جگہ ہراساں کرنے کے لیے بنائی گئی ایکٹ (ہراسمنٹ آف وومن آن ورک پلیس ) میں کام کرنے کی جگہ خواتین کو ہراساں کے جرم ثابت ہونے پر3سال قید اور 5لاکھ روپے جرمانہ ہو سکتا ہے ،تعزیرات پاکستان سیکشن509تحت بھی خواتین اپنی ہراسمنٹ کے خلاف تھانے میں ایف آئی آر درج کرسکتی لیکن تھانہ کلچر کی وجہ سے اکثر خواتین اس اذیت ناک صورت حال کی بجائے خاموشی کو بہتر سمجھتی ہیں، ایکٹ کے مطابق کہ ہر نجی اور سرکاری اداروں تین رکنی کمیٹی ہوگی جس میں خواتین کی نمائیندگی ضروری ہوگی جو کہ کسی بھی شکایات کے ازالہ کرنے کے لیے کام کریگی جبکہ اس قانو ن کے تحت ادارے ضابطہ اخلاق بنانے کے بھی پابند ہیں لیکن ابھی تک کسی ادارے مین ضابطہ اخلاق اس حوالے سے نہیں بنائے گئے ۔ ان مرحلوں سے گزر کرایک لڑکی 509کے تحت ایف آئی آر درج کرسکتی ہے ۔ لیکن صوبائی حکومت اس حوالے کوئی بھی اقدام نہیں کیا ہے جو کہ اس صوبے کے خواتین کے ساتھ نا انصافی ہے ، خیبر پختونخوا میں خواتین کو ہراساں کئے جانے کے حوالے سے کام کر نی والی نجی فلاحی تنظیم کی چئیر پرسن خورشید بانو کا کہنا تھا کہ کہ خیبر پختون خوا میں سالانہ 2 سے 3سو خواتین کو دفاتر میں ہراساں کیا جاتا ہے گزشتہ دو سالوں میں صرف پشاور یونیورسٹی سے 300سے زائد کیسز موصول ہوئے لیکن محتسب نہ ہونے کے باعث وہ کیسز خراب ہوجاتے ہیں اور کسی کو سزا نہ ملنے کے باعث ایسے مردوں کو شہہ ملتی ہے، انھوں نے پشاور ہائی کورٹ میں یہ نشست سات سال سے خالی ہونے کے خلاف رٹ بھی کررکھی ہے،ان کا کہنا تھا کہ سیکرٹری ویلفیر کے مطابق بجٹ ،عمارت اور دیگر بنیادی سہولیات موجود ہے لیکن پھر بھی صوبائی حکومت ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے جو کہ اس صوبے کے اُن خواتین کے ساتھ ظلم ہے جو کام کے دوران جنسی ہراساں کے شکار ہوجاتیں ہیں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نہیں چاہتی کہ ایسے واقعات کے خلاف کسی کو سزا ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف حکومت کی جانب سے دعوی کیا جاتا ہے کہ خواتین کو بااختیار بنایا جارہے اور دوسری جانب ان کو تحفظ فراہم نہیں کیا جاتاہے۔

Breathing Floor In Peshawar museum(Victoria Dancing Hall)

_MG_7422_MG_7268

  سانس لینے و الے وکٹوریہ ڈانسنگ فلور 

وکٹوریہ حال کو 1897 ءمیں تعمیر کیا گیا تھا جس کو 1906 میں میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا تھا، ایکسپرٹس کی ٹیم نے مرمت کا کام شروع کردیا
،ملک بھر اپنی نوعیت کا واحد فرش ہے جو کہ چوبیس گھنٹے سانس لیتا ہے ،120سال سے پرانی لکڑی کو دوبارہ کیمیکل ٹریٹمنٹ کے بعد نصب کیا جائےگا

خیبر پختونخوا حکومت نے انگریز دور میں بنائے جانے والا ” وکٹوریہ ڈانسنگ فلور “کی مرمت و بحالی کا کام شروع کر دیا ہے ، وکٹوریہ حال کو 1897 ءمیں تعمیر کیا گیا تھا ، 1906\7 میں بلڈنگ کو میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا تھا ، موجود ہ حکومت نے 120 سال بعد لکڑی کے فرش کی مرمت و بحالی کا کام شروع کر دیا ہے ،اپنی نویت کا واحد فرش جو کو سانس لینے والا فرش بھی کہلاتا ہے کی ایک صدی بعد مرمت کی جا رہی ہے،خیبر پختونخوا حکومت نے وکٹوریہ میموریل ہال کا فرش دوبارہ کھول کر مرمت و بحالی کا کام شرو ع کر دیا ہے ، فرش میں استعمال ہو نے والی 120سال سے پرانی لکڑی کو دوبارہ کیمیکل ٹریٹمنٹ کے بعد نصب کیا جائےگا،محکمہ آثار قدیمہ و عجائبات کے فوکل پرسن نواز الدین صدیقی نے روزنامہ 92 نیوز کو بتایا کہ فرش کی مرمت و بحالی کےلئے آرکیالوجسٹ، آرکیٹکٹس، انجنیئرز پر مشتمل ایکسپرٹس کی ٹیم کام کر رہی ہے ،ان کا کہنا تھا کہ 120 سال پرانے فرش کو چند ایک جگہوں سے دیمک لگ چکا تھا، فرش کی لکڑی کو کیمیکل ٹریٹمنٹ کے بعد دوبارہ استعمال کے قابل بنایا جائے گا ، وکٹورین میموریل ہال کی پشاور میوزیم میں تبدیلی کے بعد میوزیم کا فرش جو کہ انگریزوں کی ثقافتی سرگرمیوں کےلئے بنایا گیا تھا ملک بھر اپنی نوعیت کا واحد فرش ہے جو کہ چوبیس گھنٹے سانس لیتا ہے ،بہترین تعمیر کا شاہکار ڈانسنگ فلور زمین سے چار فٹ اوپر ہے ، لکٹری کو دیمک لگنے کے پیش نظر فرش میں نالیاں بچھائی گئی تھیں جس سے ہوا فرش کے اندر گردش کر تی رہتی ہے،اس کا اہتمام اس لئے کیا گیا تھا کہ دیمک کے ساتھ اسے نمی سے بھی محفوظ رکھا جاسکے ،اسی لئے اسے سانس لیتا فرش بھی کہا جاتا ہے،چند دہائی قبل میوزیم کے قریب سڑک کی تعمیر سے ہوادان بندہو گئے تھے جس سے فرش کو نقصان پہنچا تھا موجود حکومت کی جانب سے مذکورہ ہوادانوں پر بر قی پنکھے لگاکر فرش کی مرمت و بحالی کا کام شروع کردیا گیا ہے ۔

ویکٹوریہ میموریل ہال کی ڈانسنگ فلور کی تبدیل ہو نے کی داستان
وکٹوریہ میموریل ہال کے پشاور میوزیم میں تبدیل کرنے کی داستان بڑی دلچسپ ہے ، انگریز دور حکومت میں اعلی ٰ افسران عمارت میںموجود ڈانسنگ فلو ر پر شام کے اوقات میں اپنی فیملی کے ہمراہ رقص کر تے تھے ، بتایا جاتا ہے کہ انگریز دور حکومت میں گندھار تہذیب کے نوادرات جو کہ خیبر پختونخوا کے علاقوں سے دریافت کی جا تی تھیںکو فوری طور پر ہندوستان منتقل کر دیا جاتا تھا ، تاہم بڑی قدامت والی اور وزنی نوادرات کو لے جانے میں دقت ہوتی، جو کہ بعدازاں وکٹوریہ میموریل ہال منتقل کیا جاتا تھا، عمارت میں بڑی تعداد میںنوادرات جمع ہو نے کے بعد میموریل ہال کو باقاعدہ میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا تھا ۔

پاکستان میں اپنی نویت کے واحد ڈانسنگ فرش کےلئے گورنر ہاوس سے مخصوص راہداری
پاکستا ن میں اپنی نویت کے واحد ڈانسنگ فرش کےلئے گورنر ہاوس سے ایک خاص راہدری دی گئی تھی جو کہ وکٹوریہ میموریل ہال پر اختتام پذیر ہو تی ، موجود ہ خیبر روڈ کے اوپر برسات بنائی گئی تھی جو کہ بعدازاں ختم کر دی گئی ، پشاور میں بنائے جانے والے ڈانسنگ فرش کےلئے قیمتی لکڑی کا استعمال کیا گیا جو کہ ایک صدی سے زائد عرصہ تک کاآمد رہی ،محکمہ آثار قدیمہ و عجائبات کی جانب سے ڈانسنگ فلور کی مرمت و بحالی کےلئے ، آرکیالوجسٹ ، انجنئیراور آرکیٹیکٹ پر مشتمل ماہر ین کی ٹیم نے وہی پرانی لکڑی کو دوبارہ استعمال کے قابل بنا کر مرمت کا آغاز کردیا ہے

 

New musical instrument For Peshawar Police Band

شہزادہ فہد

پشاور پولیس میں تبدیلی آگئی ، 25 سال سے پولیس بینڈ کے زیر استعمال آلات موسیقی تبدیل کر نے کا فیصلہ کیا گیا ہے ، نئے آلات پر20 لاکھ روپے سے زائد لاگت آئے گی ، پشاور پولیس نے25 سال بعد پولیس بینڈ کےلئے نئے آلات خریدنے کا فیصلہ کیا ہے ، گزشتہ روز پشاور پولیس لا ئز میں ایس پی کواڈینیشن اور دیگر حکام نے نئے آلات کا معائنہ کیا ، شادی کی خوشیوں کو دوبالا کر نے اور شہداءکو سلامی پیش کرنے والے پشاور پولیس کے 45 افراد پر مشتمل پائپ بینڈ اور گراس بینڈ کے پاس آلات موسیقی 25 سال پرانا تھا، روزنامہ 92 نیوز سے بات چیت کر تے ہو ئے ایس ایس پی کواڈینیشن قاسم علی خان کا کہنا تھا کہ پولیس بینڈ کےلئے نئے آلات موسیقی خریدنے کےلئے مختلف نجی کمپنیوں سے کوٹیشن طلب کی ہے ، بینڈ کے پاس موجود چند آلات میں خرابی آئی ہے جس کی وجہ سے نئے آلات خریدنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ، نئے آلات سے پولیس بینڈ اہلکاروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے ، پشاور پولیس بینڈ کے اہلکاروں کو جدید آلات کی فراہم سے ان کے فن میں نکھار آئے گا ، دنیا بھرکے ٹاپ پولیس بینڈ ز میں اول نمبر پر سکاٹ لینڈ دوئم پر نادرن آئرلینڈ اور بلترتیب کینڈا، آسٹریلیا،نیوزی لینڈ ، امریکہ فرانس سرفہرست ہیں، سرکاری سطح پر تقاریب کے انعقاد پر پشاورپولیس بینڈ کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہو ئے مزید بہتری کی IMG_20170925_140518ضرورت ہے ، تاکہ یہ فن مزید پروان چڑے ۔

 

پانی کا عالمی دن: معاشرہ کی بےحسی

khana badosh basti (2)رپورٹ و تصاویر ،شہزادہ فہد

دنیا بھر میں 22 مارچ کو پانی کا عالمی دن منا یا جاتا ہے، خیبر پختونخوا سیمت ملک بھر میں اس دن کے حوالے سے تقاریب منعقد کی جا تی ہیں تاہم صوبائی دارلحکومت پشاور میں رنگ روڈ پر ایسی دنیا آباد جو کہ حکومتی اداروں اور سیاسی جماعتوں کے رہنما سے اوجھل ہے ، رنگ روڈ پر 70 سے زائد خیموں میں آباد سیکڑوں خانہ بدوش صاف پانی کی بو ند بو ند کو ترس رہے ہیں ، شائد ان کا قصور یہ ہے کہ ان کے ووٹ نہیں ہیں ، رنگ روڈ پر واقع بے نظیر ہسپتال کی اراضی میں مقیم پنجاب اور بلوچستا ن کے خانہ بدوشوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے ،بجلی پانی اور گیس جیسی ضروریات نہ ہونے پر انھیں کو ئی ملال نہیں لیکن انسان کی بنیادی ضرورت پانی کی عدم دستیابی پر یہ لوگ حکومت اداروں اور سیاسی جماعتوں سے نالاں نظر آتے ہیں ، یہاں رہنے والے ایک خانہ بدوش افضل کا کہنا ہے کہ 70 سے زائد خاندان کو پینے کا پانی میسر نہیں ہے ان کا کہنا تھا کہ چھ سوسے زائد افراد یہاں آباد ہیں جن میں پنجاب کے علاقہ ملتان کے خانہ بندوش اور بلوچستان کے خانہ بدوش موجود ہیں ،جو کہ بنیادی سہولت سے محروم ہیں ، رنگ روڈ پر قائم خانہ بدوشوں پاکستان شہری ہیں ان میں بیشتر افراد کے پاس قومی شناختی کارڈ موجود ہے لیکن شائد ان کو نظر انداز اس لئے کیا جارہا ہے کہ ان کا ووٹ انداج نہیں ہوا ،حکومت کی جانب بنیادی سہولیات فراہم ہر شہری کا حق ہے ، ہمارا معاشرہ اتنا بے حسی کی انتہا پر پہنچ چکا ہے یہاں صرف مفادات کی خاطر کام کئے جا تے ہیں ،پانی کی قدر ان لوگوں سے کو ئی پوچھے ،صوبائی دارلحکومت میں جہاں دیگر مسائل سے شہری پریشان ہیں وہاں دیگر علاقوں میں بھی پینے کے صاف پا نی کے گو ںنا گوں مسائل حل ہو نے کا نام ہی نہیں لیتے، سرکا ری اعداد شمار کے مطابق خیبرپختونخوا میںغیر رجسٹرڈ67 ہزار سے زائد ا فراد کا لے یرقان میں مبتلا ہیں اور لاکھوں افراد پیٹ کی بیماریوں اور دیگر بیما ریوں بھی مبتلا ہیں،ماہرین ِ طب کے مطابق یرقان اور پیٹ کی بیما ریاں گندا پا نی پینے سے لا حق ہو تی ہیں ۔ خیبر پختونخوا میں موجودہ حکومت کے آتے ہی شہری سہولیات کےلئے محکمہ بنایا گیاتاہم بیشتر علاقوںمیں شہریوں کو پینے کا صاف پا نی میسر نہ ہو سکا ، دو دن بعد پا نی کے عالی دن کے موقع پر پشاور میں این جی او اور دیگر اداروں کی جانب سے مختلف مقامات پر تقاریب کے انعقاد کیا جا ئے جو کہ اخبارات اور ایکٹرانک میڈیا کی حد تک رہے گا، رنگ روڈ پر قائم سیکٹروں خانہ بدوش اس دن بھی پینے کے صاف پانی کے منتظر رہیں گے کہ شائد کو ئی تو ان کی آواز سن لے ۔

خانہ بدوش بستی میں پانی روپوں پر فروخت ہوتا ہے
پانی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا سکتا ہے کہ زمین کی طر ح دیگر سیاروں میں پانی کے اثارات کی موجود گی پر دنیا بھر کے سائنس دان اس سیارے پر زندگی کا وجود تلاش کرنے لگتے ہیں ، رنگ روڈ پر قائم خانہ بدوش بستی میں جہاں حکومتی سطح پر پانی کا کوئی بندوبست نہیں ہے وہاں چند افراد نے دور دراز علاقوں سے پلاسٹک گیلن اور چھوٹے کین میں پانی لا کر فروخت کرتے ہیں ، بڑا گیلن 25 روپے جبکہ چھو ٹا15 روپے میں فورخت کیا جاتا ہے جس سے خانہ بدوش روپوں کے عوض پانی خرید نے پر مجبور ہیں، بستی کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ وہ سالوں سے یہاں مقیم ہیں ، حکومت کی جانب سے چند ہیندپمپ لگانے سے سیکڑوں افراد کو پانی میسر ہو جا ئے گا

Kite Flying In Peshawar

شہزادہ فہد

مو سم بہار آتے ہی پشاور میں روایاتی تہوار پتنگ بازی عروج پر پہنچ جاتی ہے، پتنگ بازی ایک ایسا شغل ہے جو دنیا کے مختلف ممالک میں پایا جاتا ہے، ملک بھرمیں مقبولیت کی وجہ سے پتنگ سازی ایک چھوٹی صنعت کی شکل اختیار کر گئی ہے، ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں پتنگ بازی ہما رے کلچر کا حصہ ہے ، اسے مشغلہ کے ساتھ کھیل بھی کہا جاسکتا ہے ،یہاں تک کہ مختلف دیہاتوں میں تو پتنگوں کے میچ رکھے جاتے ہیں، اور ان کی خوب ذوق و شوق سے تیاری کی جاتی ہے، پتنگ کی ڈور کو تیز دھار بنایا جاتا ہے تاکہ پیچ لگتے ہی حریف کی پتنگ کاٹ دی جائے،بڑے شہروں میں تو پتنگ، مانجھا، اور چرخی وغیرہ خرید کر اس شوق کو پورا کیا جاتا ہے، جبکہ دیہاتوں میں پتنگ، مانجھا، اور چرخی خود تیار کی جاتی ہیں، پشاور میں مو سم بہار کی آمد کے ساتھ یکہ توت میں پتنگ بازی کا بازارلگ جاتا ہے جہاں پنجاب کے مختلف علاقوں سے منگوائی گئی پتنگ اور ڈور جیسے پشتو، ہندکو اور پنجابی میں مانجھا کہا جا تا ہے فروخت کی جا تی ہے ، لوکل مارکیٹ کے دکانداروں کا کہنا ہے کہ پتنگ اور مانجھا لاہور ، فیصل آباد، جھنگ اور دیگر شہروں سے منگوایا جاتا ہے ، اس وقت صوبے بھر میں یکہ توت میں پرچون کی واحد مارکیٹ ہے جس میں پتنگ بازی کاسامان فروخت کیا جاتا ہے ، مارکیٹ میں کا غذ کی بنائی جانے والی گڈی کی مختلف اقسام موجود ہیں جن میں پانچ روپے سے لے کر چار سو روپے تک کی گڈی فروخت کی جا تی ہے ، گڈی پر نقش و نگار اس کی قیمت دوگنا بنادیتے ہیں، دکانداروں کا کہنا ہے کہ پتنگ بازی سیزن کے طور پر لیا جاتا ہے سال میں صرف دو ماہ ہی ان کا کاروبار چلتا ہے ، ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں پتنگ بازی کا شوق صرف بچوں تک محدود ہے ،جس کی وجہ سے پتنگ بازی کا رجحان قدرے کم ہو رہا ہے ،بدقسمتی سے اس مشغلے کا کئی غیر قانونی طریقوں کے استعمال کی وجہ سے صدیوں پرانی روایت زوال ہو رہی ہے، پنجاب میں تو باقاعدہ طور پر پتنگ بازی پر پابندیاں عائد کردی گئی ہیں، خیبر پختونخوا میں پتنگ بازی پر کو ئی قدغین نہیںہے، پشاور کی پرچون مارکیٹ کے دکانداوں کا کہنا ہے کہ پشاور میں دھاتی منجھے کو کوئی نہیں جانتا ، یکہ توت میں پتنگ بازی کا سامان فروخت کرنے والے دکانداروں کی یونین کے ارکان باقاعدگی سے دکانوں کی چیکنگ کر تے ہیں جس میں ممنوع چیزیں ریکھنے کی ممانت کی جاتی ہے ،دنیا بھر میں پتنگ بازی کو ایک کھیل کے طور پر منایا جاتا ہے سرکاری سطح پر میلوں کے انعقاد سے نا صرف اس قدیم روایات کو تقویت ملتی ہے بلکہ غیر ملکی سیاحوں کو راغب کر نا کا سبب گردانہ جاسکتا ہے ،اگر پشاور میں بھی پتنگ بازی کے لیے سال میں ایک دفعہ کوئی کھلی جگہ مخصوص کردی جائے تو پتنگ بازی جو ہماری ثقافت کا حصہ بن چکا ہے، نہ صرف بچایا جاسکتا ہے، بلکہ غیر ملکی سیاحوں کے لیے باعث کشش ہوسکتا ہے جس سے سیکڑوں لوگوں کو روزگار مل سکتا ہے اور تفریح کے ساتھ ساتھ کثیر زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے ا اور پوری دنیا میں ہماری ثقافت متعارف کروائی جاسکتی ہے۔

نئی نسل بے خبر
نئی نسل ہاتھ سے بنائے جانے والے مانجھے سے ناآشنا ہے ، چائینہ سے تیار آنے والے کیمیکل جو کہ ما نجھے کا متبادل مانا جاتا جس سے ایک طر ف تو پتنگ بازی کی ساخت سے نقصان پہنچا ہے تو دوسری جانب سے نئی نسل کو ہاتھ سے بنائے جانے مانجھے سے نا واقف رکھنے کی وجہ ٹھرایا جاتا ہے ، ایک دہائی قبل پتنگ کو اڑانے والے مانجھے کی تیاری کچھ اس طرح کی جاتی ہے کہ سوتی دھاگے کی ریلیں یا گولا لیا جاتا ہے، اور اسے کسی بھی سہارے یا درختوں کے گرد گھما دیا جاتا ہے، جس طرح بجلی کی تاریں ایک کھمبے سے دوسرے کھمبے تک لگائی جاتی ہیںاور مچھلی سریش اور شیشے کی بنائی جانے والے محلول کو دھاگے پر گزار جاتا ہے ،مرحلے کے ختم ہونے کے بعد ان دھاگوں کو سوکھنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے، جب یہ دھاگے اچھی طرح سوکھ جاتے ہیں تو پھر اسے چرخی پر یا ایک گولے کی شکل میں لپیٹ لیا جاتا ہے اور جب یہ تیار ہوتا ہے تو اس کی دھار کو چیک کرنے کے لیے اس تیار مانجھے کو کسی دوسرے مانجھے سے ٹکرایا جاتا ہے، معمولی سی رگڑ سے دوسرے مانجھے کو کاٹنے والے مانجھے کو تیز قرار دیا جاتا ہے

پتنگ بازی تاریخ
پتنگ کو اڑتے یا اڑاتے دیکھیں تو یہ سوال ذہن میں ضرور آتا تھا کہ سب سے پہلے پتنگ کس نے بنائی ہوگی، اور اسے یہ بنانے کی کیا سوجھی ہوگی یا پھر جب پہلی بار پتنگ بنائی گئی ہوگی، تو وہ اسی شکل کی ہوگی وغیرہ وغیرہ،جب اس بارے میں معلومات اکٹھا کرنا شروع کی تو بہت ہی دلچسپ اور حیران کن معلومات میسر آئیں،تاریخِ عالم میں پتنگ اڑانے کا اولین تحریری حوالہ سن 200 قبل مسیح میں ملتا ہے جب چین میں سپہ سالار ہان سینگ نے دشمن کے ایک شہر کے باہر پڑاو¿ ڈال رکھا تھا، لیکن وہ براہِ راست حملے کا خطرہ مول لینے کے بجائے ایک سرنگ کھود کر شہر میں داخل ہونا چاہتا تھا۔ لیکن اسے یہ اندازہ نہیں ہورہا تھا کہ سرنگ کتنی لمبی کھودنا پڑے گی، اس لیے اس نے پڑاو¿ کے مقام سے شہر کی فصیل تک کا فاصلہ ناپنے کی ٹھانی،اس نے دیکھا کہ ہوا اس سمت کی ہی چل رہی ہے جہاں وہ سرنگ کے ذریعے حملہ آور ہونا چاہتا ہے اور وہ یہ دیکھ رہا تھا کہ اس کے پڑاو¿ والے علاقے سے اس جانب ہوا کے ساتھ کاغذ اڑتے جاتے ہیں۔ بس یہ دیکھ کر اس نے ایک کاغذ لیا، اور اس میں ایک درخت کے چند تنکے باندھ دیے تاکہ اسے ہوا کا دباو¿ حاصل ہو سکے جو اس کے اڑنے میں مدد گار ثابت ہو، اور پھر ایک لمبے دھاگے کی مدد سے اسے اڑا دیا،جب وہ کاغذ مطلوبہ مقام تک پہنچ گیا تو اسے ناپ کر واپس کھینچ لیا، اور ڈور کو ناپ کر فاصلہ معلوم کر لیا، یہی دنیا کی پہلی پتنگ تھی، جو ایک جنگی مقصد حاصل کرنے کے لیے اڑائی گئی تھی۔ پھر قدیم چین میں پتنگ سازی فوجی استعمال کے لیے کی جانے لگی، جس میں فوج کا جاسوسی کا کام بھی تھا۔ اپنے ہی فوجیوں کو ایک پڑاو¿ سے دوسرے پڑاو¿ تک پیغام رسانی، اور اپنے ساتھیوں کو اپنی پوزیشن بتانے کے لیے پتنگیں اڑائی گئیں، اور حیران کن بات یہ ہے کہ چھوٹے ہتھیار تک ایک جگہ سے دوسری جگہ ان پتنگوں سے پہنچائے گئے،پھر اس کے بعد چین سے پتنگ سازی کا یہ فن کوریا پہنچا۔ وہاں بھی ایک جرنیل کی کہانی ملتی ہے، جس کی فوج نے آسمان پر ایک تارا ٹوٹتے دیکھا، اور اسے برا شگون سمجھ کر میدانِ جنگ سے منہ موڑ لیا۔ جرنیل نے اپنی فوج کا وہم دور کرنے کے لیے سپاہیوں کو بہت سمجھایا بجھایا لیکن وہ مان کر نہ دیے۔ آخر جرنیل نے ایک ترکیب سوچی۔ اس نے ایک بڑی سی سیاہ پتنگ تیار کی، اور اس کی دم سے ایک شعلہ باندھ کر رات کے اندھیرے میں اسے اڑایا تو فوج کو یقین آگیا کہ آسمان سے جو تارا ٹوٹا تھا وہ واپس آسمان کی طرف لوٹ گیا ہے، اور اس طرح محض ایک پتنگ کے زور پر جرنیل نے اپنی فوج کا حوصلہ اتنا بلند کر دیا کہ وہ لڑائی جیت گئی،فوج کے بعد یہ کارگر نسخہ بدھ راہبوں کے ہاتھ لگا جو بدروحوں کو بھگانے کے لیے عرصہء دراز تک پتنگوں کا استعمال کرتے رہے۔

خیبر پختونخوا میں بنائی جانے والی پلاسٹک شاپر کی منفرد پتنگ
کہتے ہیں ضرورت ایجاد کی ماں ہے، خیبر پختونخوا میںپلاسٹک شاپر سے بنائی جانے والی پتنگ کی مثال نہیں ملتی اس کو بھی ضرورت کے تحت ایجاد کیا گیا ،گھر میں پلاستک شاپر اور جھا ڑوں کے تیلوں سے بنائی جانے والی پتنگ پر کو ئی روپے خرچ نہیں ہو تے، دنیا بھر میں پلاسٹک سے بنائی جانے والی مفت کی پتنگ صرف اور صرف خیبر پختونخوا میں بنانے کا رواج ہے، مشرقِ بعید سے پتنگ بازی کا مشغلہ کب اور کس طرح برصغیر پاک و ہند پہنچا، اس بارے میں تاریخ کوئی واضح اشارہ نہیں دیتی، البتہ اس ملک میں پتنگ بازی کی اولین دستاویزی شہادتیں مغل دور کی مصوری میں دکھائی دیتی ہیں،سولہویں صدی کی تصویروں میں اکثر یہ منظر دیکھا جا سکتا ہے کہ عاشقِ زار اپنے دل کا احوال کاغذ پر لکھ کر ایک پتنگ سے باندھتا ہے، پھر یہ پتنگ ہوا کے دوش پر سوار ہوکر کوچہءمحبوب کی فضاو¿ں میں پہنچتی ہے اور معشوقہءدلنواز کی چھت پر منڈلانے لگتی ہے،

گیتوں اور نغموں میں پتنگ کا استعمال اور عقائد
پتنگ بازی کو پشتو ، اردو اور پنجابی گیتوں میں شو ق و زوق سے استعمال کیا گیا ، فلموں اور ڈراموں پتنگ بازی کے بارے میں مختلف گیت اس کی عکاسی کر تے ہیں، چینیوں کے پتنگ کے بارے میں حیران کن اور دلچسپ عقائدہیں کہ پتنگ جتنی اونچی اڑے گی آپ کی پریشانیاں آپ سے اتنی ہی دور ہوجائیں گی، کسی کی چھت پر کٹی پتنگ گرجائے تو اسے بدشگونی سمجھا جاتا ہے، اور اس پتنگ کو پھاڑ کر جلادیا جاتا ہے، چین اور کوریا سے ہوتا ہوا جب پتنگ بازی کا یہ فن جاپان پہنچا تو عوام میں اتنا مقبول ہوا کہ جاپان میں ایک سخت قانون نافذ کر دیا گیا جس کے تحت صرف شاہی خاندان کے افراد، اعٰلی سِول اور فوجی افسران، اور چند مراعات یافتہ معزز شہریوں کو پتنگ اڑانے کی اجازت دی گئی۔

Waistcoat (واسکٹ)

 شہزادہ فہد
فیشن کو ہمیشہ خواتین کے ساتھ ہی جو ڑا جاتا ہے لیکن اس دوڑ میں مرد بھی کسی سے کم نہیں ہیں بدلتے موسم میں جہاں نت نئے کپڑوں کی تیا ری کےلئے جتن کئے جا تے ہیں وہاں قدیم روایتی اورعزت ورتبے کی نشانی نئے زمانے کے فیشن میں اہم مقام رکھنے والی واسکٹ کی تیا ری کا خصو صی اہتمام بھی معمول بن چکا ہے، واسکٹ کو پختون معاشرے میں اہم مقام حاصل ہے، خیبر پختونخوا کے کلچر میں واسکٹ لباس کا اہم جزو قرار دیا گیا ہے ۔ نوجوان واسکٹ کو خوشی کے موقع پر پہنتے ہیں شادی بیا ہ کی تقریب واسکٹ دولہا اور اس کے قریبی دوست ایک رنگ کی واسکٹ سلوانے کا رواج بھی پروان چڑ رہا ہے،شادی بیاہ اور عید کے موقعوں پر واسکٹ نوجو ان اور بزرگوں کا پسندید ہ پہناوا قرار دیا جاسکتا ہے ، اسی لئے درزیوں کی جانب سے عید الفطر پر واسکٹ کی تیاری کےلئے رمضان کے مہینے میں ہی بکنگ بند کی جا تی ہے جس کی وجہ اس کی تیا ری میں کا فی وقت کا روکا ر ہو نا بتا یا گیا ہے ، واسکٹ کی پا نچ سے زائد اقسام ہیں جن میں گول گلہ ، کلا ٹی اور وی شیپ واسکٹ کا فی مقبول ہیں، خیبر پختونخوا کے کلچرو ثقافت میں واسکٹ کورعب و عزت کی نشانی سمجھا جا تا ہے ، واسکٹایسا پہناو ا ہے جو کہ گرمی اور سردی میںیکساں تن پوش کیا جا تا ہے ،گرمیوں میں ہلکے کپڑے جبکہ سردیوں کے موسم میں بھا ری کپڑے کی واسکٹ تیار کی جا تی ہے ،

 :واسکٹ کی تاریخ

This slideshow requires JavaScript.

کے بارے میں بتا یا جاتا ہے کہ اس کی ابتداءایران سے ہو ئی اور یہ افغانستان سے ہو تی ہوئی پاکستان پہنچی۔ کنگ چارلس دوئم کی لیڈ ی کلر شخصیات نے 1666 عیسوی میں اس کی مقبولیت میں اضافہ کیا ، 1789 عیسوی میں فرانس کے صنعتی انقلاب آیا تو لو گوں کے پاس پیسہ زیادہ ہو نے لگا تو لوگوں نے واسکٹ کا استعمال شروع کر دیا ، 1800 عیسوی میں اس کے ڈیزائن میں تبدیلی رونما ہو ئی اور فٹنگ والی واسکٹ کا رواج شروع ہو ا ، 19 ویں صدی میں اس کا سائز مزید چھو ٹا ہو گیا۔

:قیمتوں میں اضافہ سے روایت میں کمی واقع ہو رہی ہے :
عید کےلئے واسکٹ کی سلا ئی نرخوں میں خو دساختہ اضافہ کیا جا تا ہے،عام دنوں میں سلا ئی کے با رہ سو روپے جبکہ عید کےلئے پندرہ سو سے اٹھا رہ سو روپے تک وصول کئے جا تے ہیں ۔ شہریوں کے مطابق سلائی میں خود ساختہ اضا فے کی وجہ سے وہ قدیم روایا تی لباس سے محروم ہو نے لگے ہیں نرخوں میں اضافے کے باعث شہری مارکیٹ میں تیار واسکٹ کو ترجیح دیتے ہیں ، خیبر پختونخوا میں تیار واسکٹ کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے جس پر شہریوں نے موقف اختیا رکیا ہے کہ سلا ئی اضافے اور درزیوں کی من مانیوں کی وجہ سے تیار واسکٹ بہترین متبادل قرار دی جا رہی ہے ، قصہ خوانی ، صدر ، خیبر بازار میں تیار واسکٹ فروخت کیا جا رہی ہیں جو کہ آٹھ سو سے بارہ سو روپے تک فروخت ہو رہی ہیں ۔

Magic (جادو)

j-1

شہزادہ فہد۔۔

دنیا میں کوئی جادوگر نہیں ہو تا میجک ایک سائنس ہے لو گ اسے ہا تھوں کی صفائی سے پیش کر تے ہیں شعبدہ باز( جادو گر) اسے اتنی تیزی سے ٹریکس ادا کر تے ہیں کہ انسانی آنکھ دیکھ نہیں سکتی، یہ تمام ہاتھ کی صفائی کا کمال ہو تا ہے دنیا بھر میں میجک سے لو گوں کا علاج کیا جا رہا ہے، یو رپ اور خلجی ممالک میں سٹریٹ میجک کا رواج عام ہے یہ ایک ایسا پیشہ ہے جو کہ لو گو ں کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر دیتا ہے اور میجک دیکھتے ہوئے لو گ تمام غم بھول جا تے ہیں،شعبدہ بازی کی تاریخ پر نگا ہ ڈالی جا ئے تو ہم پر یہ حقیقت واضح ہو جا ئے گی کہ یہ بہت قدیم فن ہے سچی و من گھڑت داستانیں اور کہا نیاں سننے کو ملتی ہیں ، ہمارے ملک میں بعض فنو ن کو نظر انداز کر نے کی روایت نے اس فن کو بری طر ح متاثر کیا ہے ، خیبر پختونخوا میں اس وقت ایک درجن پیشہ وار شعبدہ باز ہیں،شعبدہ بازی بھی آرٹ کا حصہ ہے، اور پختون راویات میں اس کو ایک خاص مقام حاصل ہے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ ہما رے کلچر کا ایک حصہ ہے ،پچھلی دہا ئی میں دہشت گر دی اور خراب حالات کے باعث شعبدہ بازوں کی معاشی حالات بہت متاثر ہو ئے ہیں،یہی وجہ ہے کہ شعبدہ باز ی میں کوئی آنے کو تیار نہیں ہے ، دنیا بھر میں شعبدہ باز ی سے بیماریوں کا علاج ہو رہا ہے خیبر پختونخوا میں بازاروں اور سکولوں میں شعبدہ بازوں کے زریعے عوام میں تنا و اور بے چینی کی فضا ئ کو ختم کیا جاسکتا ہے،ہمارے معاشرے میں لو گ میجک دیکھنا پسند کر تے ہیں لیکن فنکا روں سے انھیں کو ئی لگا و نہیں ہوتا خیبر پختونخوا میں شعبدہ باز ی سے تعلق رکھنے والے آرٹسٹ زبوں حالی کا شکار ہیں مہینوں پروگرام نہ ہو نے کے باعث فاقہ کشی پر مجبور ہیں شعبدہ بازوں کو لو گ شادی بیاہ ، سالگرہ اور دیگر تقریبات میں فن ادا کر نے کےلئے مد عو کر تے ہیں شعبدہ با زوں کو مستقل بنیادوں پر روز گار فراہم کیا جا ئے تاکہ وہ ملک کو قوم کی خدمت کر سکیں ،حکومت سرکا ری سکولو ں میں بچوں کو تفریحی فراہم کر نے کےلئے اقدام کر ے، صوبائی حکومت کی جانب سے آرٹسٹوں کو ماہا نہ اعزایہ اور ایواڈ دینے سے آرٹسٹوں کی حوصلہ افزائی ہو ئی ہے لیکن شعبدہ بازی سے تعلق رکھنے والے آرٹسٹوں کا نظر آنداز کیا گیا ہے

پشاورکے بین الاقوامی شعبدہ باز کا انوکھا دعویٰ۔
اگر کو ئی آپ سے بو لے کہ وہ مینار پاکستان کو غائب کر سکتا ہے تو آپ کو عجیب لگے گا اسی طرح کا دعویٰ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے بین اقوامی شعبدہ باز اقبال حسین کئی بار کر چکے ہیں انھوں نے بتایا کہ یہ کو ئی انہو نی بات نہیں ہے اس قبل یہ آئٹم امریکی شعبد ہ باز ڈیو ڈ کا پر فیلڈ کر چکا ہے جس نے ہزاروں لوگو ں کے سامنے (آزادی کا مجسمہ) غائب کر دیا تھا ،مینا ر پاکستان کو غائب کر نا اس کے دائیں ہا تھ کا کھیل ہے لیکن اس پر کا فی رقم خرچ ہو تی ہے اگر حکومت سپورٹ کر ے تو وہ یہ آئیٹم کر نے کو تیار ہے، اقبال حسین 1995 ءسے انٹرنیشنل مجیشن تنظیم ( برادرہو ڈ آف میجیشن) کے ساتھ منسلک ہیں انھوں نے پاکستا ن کے علاوہ دیگر ممالک میں شعبدہ باز ی میں نام کمایا ہے وہ پاکستان میں یو نائیٹڈ میجیشن آف پاکستان کے عہدے دار اور پاکستان میجشن سو سائٹی کے نائب صدر بھی ہیں ،وہ مختلف ممالک میں پا کستان کی نمائندگی کر چکے ہیں جن میں ہا نگ کا نگ ، انڈیا ، سنگا پور،بنکاک، چین اور دیگر ممالک شامل ہیں ،اقبا ل حسین بچوں کے ساتھ بڑوں میں بھی کا فی مقبول ہیں،ان کا کہنا ہے کہ بچپن میں اپنے ماموں کی ایک ٹریک سے بہت متاثر ہوا اور باقاعدہ شعبد ہ باز ی کے مید ان میں قدم رکھا اس حوا لے تربیت حاصل کی ہے شعبد ہ باز ی میں 36 سال سے زائد عرصہ سے کام کر رہا ہوں ، حکومت کی سر پرستی میں خیبر پختونخوا کے عوام کےلئے کچھ کر نا چاہتا ہو ں ،انھوں نے بتایا کہ پاکستا ن میں آلا ت شعبد ہ بازی کا فی مہنگے ہیں جس کی وجہ سے پاکستانی شعبدہ باز لو کل ٹریک پر ہی آئٹم پیش کر تے ہیں ، حکومت شعبدہ بازوں کےلئے سہولیات فراہم کرے تو عین ممکن ہے کہ پاکستانی شعبدہ باز دنیا کے شعبدہ بازوں پر برتری حاصل کر لیں۔

Pigeon Shooting In Peshawar (پشاور میں کبوتر بازی)

سروے رپورٹ و تصاویر ، شہزادہ فہد

کبوترباز کبوتر پکڑنے اور کبوتروں کو پالنے والے کو کہا جا تا ہے، کبوتر بازی ایک مشغلہ ہنرکے ساتھ ساتھ ایک منافع بخش کاروباربھی بن چکا ہے، اس کے شوقین افراد کبوتروں کی افزائش اور نئی اور اعلٰی نسل کے لیے کبوتروں کی مخلوط نسلوں کا جوڑا بناتے ہیں کبوتروں کی نسلوں کے بارے یہی لوگ باآسانی اندازا لگا سکتے ہیں، ایک اندازنے کے مطابق دنیا بھر میں کبوتروں کی تقریبا289 سے زائد اقسام ہیں ،کبوتروں کی نسلوں کا فرق ان کی شکل و صورت کے ساتھ اڑان کا دورانیہ اڑان کی بلندی اور طوراطوار سے ظاہر ہوتاہے دنیا بھر میں کبوتروں کے مقابلے ہوتے ہیں جس میں بھاری جوا لگایا جاتا ہے، معاشرتی طور پر کبوتر بازی کو روپے اور وقت کا زیاع سمجھا جاتا ہے اس کے باوجود تقریباً ہر محلے میں کبوتر باز موجود ہیں کبوتر بازی کا مرکز پاک ہند کو سمجھا جاتا ہے شعرا نے اپنے کلام میں کبوتر پر شعر لکھے ہیں عام طور پر شعروں میں کبوتر کا پیغام رساں اور قاصد پرندہ کے طور پر ذکر ملتا ہے۔صوبا ئی دارلحکومت پشا ومیں سیکڑوں افراد کبوتر باز ی کے شوق میں مبتلا ہیں ، پشاور میں زیادہ تر پنجاب کے کبوتر پسند کئے جا تے ہیںاور نھیں لوکل کبوتروں پر ترجیح دی جا تی ہے ، اس حوالے سے روزنامہ ایکسپریس میں کبوتر بازی کے متعلق سروے میں مختلف علاقوں کے افراد سے معلومات لی گئی ہیں ، پشاور میں کبوتر بازی کے شوقین افراد کا کہنا ہے کہ لوکل کبوتر چند دن بعد اپنے مالک کے پاس واپس چلا جاتا ہے، پشاور میں سرگودھا ، فتح جنگ ، ملتان ، ڈی آئی خان ، خوشاب اور دیگر جگہوں سے کبوتر وں کو فروخت کےلئے لایا جاتا ہے ، ایک اندازے کے مطابق 200 کبوتر وں کی افزائش پر یومیہ تین سو روپے سے چار سو روپے تک خرچہ آتا ہے ،کبوتر بازی واحد مشغلہ ہے کہ جس میں کبوتر خود اپنا دانہ پانی پیدا کر تے ہیں ، ریس کے کبوتر ہر ہفتہ اپنے ساتھ کو ئی نیا کبوتر لاتے ہیں جس کو مارکیٹ میں فروخت کیا جاتا ہے،کبوتر بازی سے لڑائی جھگڑے معمول بن چکے ہیں آئے روز نا خشگوار واقعات نے اس مشغلے کی اہمیت کو ختم کردیا ہے ، دیہی علاقوں میں کبوتربازی کا رجحان شہری علاقوں سے زیادہ پایا جاتا ہے

پشاور میں کبوتر بازی کی منڈیاں
صوبا ئی دارلحکومت پشاور میں کبوتر بازی کے شوقین افراد کےلئے باقاعدہ منڈیاں لگائی جا تی ہیں ، پشاو رمیں فردوس پھا ٹک ، سیفن بڈھ بیر، با ڑہ اور رنگ روڈ پر جمعہ اور اتوار کے روز منڈیاں سجائی جا تی ہیں ، منڈیوں میں ہفتے بھر میں پکڑے جانے والے کبوتروں کو فروخت کےلئے لایا جا تا ہے ، منڈیوں میں جہاں کبوتر کی خرید فروخت کی جا تی ہے وہاں کبوتر بازی سے منسلک سامان بھی فروخت کیا جاتا ہے ، ان میں کبوتر پکڑنے والا جال جو کہ لوکل افراد اپنے ہاتھوں سے بناتے ہیں یہ جال 250روپے تک فروخت کیا جاتا ہے اسی طرح کبوترو ں کے پاوں میں ڈالے جانے والے گھنگرو اور دیگر اشیاءکا بازار بھی لگایا جاتا ہے جس سے درجنوں افراد برسرروزگار ہیں

غیرملکی کبوتر لوکل کبوتروں پر حاوی
پشاو ر میں امریکی، جرمن ، اسرائیلی، ڈینش اور چائینہ کبوتر لوکل کبوتروں پر حاوی ہیں ، یورپی کبوتر 70 ہزارسے زائد تک جوڑا فروخت کیا جا رہا ہے ، پشاور کے کبوتر باز لوکل کبوتر پر یورپی کبوترو ں کو ترجیح دیتے ہیں جس کی وجہ خوبصورتی ، رنگت اور طویل اڑان بتائی جا تی ہے،پشاور میں امریکی ، جرمن ، ڈینش، اسرائیلی کبوتروں کی جو ڑی 70 ہزار روپے یا س سے زائد میں فروخت کی جا تی ہے جبکہ لوکل کبوترجن میں تو ر شیزای ، سبز چپ، تو رڈھنڈے مار، شیت رو، غورہ ، زرد جو گی ، لا ل جو گی ،سیاح چپ اور دیگر کی قیمتیں غیرملکی کبوتروں سے قدرے کم ہیں ، ان کی قیمت عام مارکیٹ میں 300 سے 500 تک بنائی جاتی ہے جبکہ ان میں خاص کبوتر کی قیمت10 ہزار تک بتائی جاتی ہے

کبوتر بازی کی تاریخ
کبوتر بازی کا شوق 700سال قبل شروع ہوا تھا بابر بادشاہ نے اس کی افتتاح کی بعد از اں وہ ایران اور ترکمانستان کے راستے برصغیر میں داخل ہوئے اور اپنے ساتھ اپنے پالتو کبوتر بھی لے آئے یہ شوق اکبر بادشاہ کے دور میں مزید زور پکڑ گیا اور تقریباً ہر چھٹی کے روز اس کے باقائدہ مقابلے ہوتے تھے اور جو کبوترسب سے زیادہ دیر تک فذا میں رہتا اس کے مالک کو شاندار کھانے کھلائے جاتے اور اسے انعامات بھی دیئے جاتے، بادشاہوں نے اپنے کبوتروں کو ٹرینڈ کرنے کے لئے پیشہ وار ملازم بھی رکھے ہوئے تھے۔جن کو بھاری معاوضے دیئے جاتے تھے اگر کوئی ٹرینی کبوتر کو زیادہ مہارت سکھاتا تو اس کا اسپیشل انعام رکھاجاتا،700سال قبل بھی کبوتر بازی کے مقابلے ہوتے تھے اور بادشاہ کے ساتھ وزراءدرباری اور دیگر لوگ بھی اس میں شرکت کرتے اور انہیں بھی موقع دیا جاتا کہ وہ کبوتر بازی دیکھیں،اس وقت کے مطابق بتایا جاتا رہاہے کہ یہ کھیل امیروں، نوابوں، مہاراجوں اور امیر لوگوں کا کھیل ہوا کرتا تھا،برصغیر میں آنے کے بعد اس شوق میں کبوتروں پر جواءلگایا جانے لگاkabotar-2

سہ ماہی نوکھی کبوتر ریس
کبوتروں کے شوقین افراد اپنے آپ کو مشغول رکھنے کے ساتھ اس پر بھا ری جوا بھی لگاتے ہیں ، پشاور کے مختلف مقامات پر کبوتروں کی ریس کا انعقاد کیا جا تا ہے ، ایک خاص مقام پر کبوتروں کو چھوڑا جاتا ہے اور سب سے پہلے گھر پہنچنے والا کبوتر فاتح قرار دیا ہے ، حاجی کیمپ کمبوہ میں کبوتر بازی کے شوقین افراد کی جانب سے ایک انوکھی سہ ماہی ریس کا انعقاد کیا جاتا ہے ، راولپنڈی پیر ودائی اڈے سے کبوتر باز دو کبوتروں کو فضاءمیں چھو ڑ دیتے ہیں جس میں پہلے گھر پہنچنے والے کبوتر کے مالک کو رقم کے ساتھ ہا رنے والا شخص سفر کے تمام اخراجات برداشت کرتا ہے ، خیبر پختونخوا میں حکومتی سطح پر کبوتر بازی کے مقابلوں کا انعقاد کرنے سے کبوتر باز ی کے میدان میں ایک صحت مندازنہ مقابلے کی فضاءقائم کی جاسکتی ہے،

Egg Daliy Consumption In Peshawar

 شہزادہ فہد

موسم سرما کے آتے ہی صوبا ئی دارلحکومت پشاور میں انڈوں کے استعمال میں حیرت انگیز طور پر اضافہ ہو جا تا ہے، ایک اندازے کے مطابق پشاور کے شہری 2 لاکھ آٹھاسی ہزار سے زائد انڈے روزانہ کے حساب سے کھا تے ہیں، پرچون ڈیلروں کے مطابق پنجاب اور دیگر صوبو ں سے یومیہ 800 پیٹی انڈے پشاور لا ئے جا تے ہیں ، فی پیٹی میں 30 درجن انڈے ہو تے ہیں، اسی طرح لو کل علاقوں سے دیسی انڈے کثیر تعداد میں فروخت کےلئے لا ئے جا تے ہیں، پشاور انڈوں کے کا روبار سے منسلک افراد نے سروے میں بتایا کہ شاور میں پنجاب کے علاقہ کمالیہ ، سمندری اور ملحقہ علاقوں میں پولڑی فارمز سے روزانہ مخصوص گا ڑیوں میں پرچون دکانداروں کے پاس انڈے لا ئے جا تے ہیں جہاں سیل مینز انڈوں کو پورے پشاور میں سپلا ئی کر تے ہیں، ڈاکٹر وں کا کہنا ہے کہ غذائیت سے بھرپور غذاء کھانے سے انسان کو وٹامن اے، وٹامن بی، کیلشیم، فاسفورس اور فولاد میسرہوتے ہیں ،بے پناہ غذائی صلاحیت کے باعث انڈا دنیا بھر میں ایک عرصے سے ناشتے کا لازمی جز قرار دیا جا رہا ہے، انڈا بہت سے دلچسپ طریقوں سے تیارکیا جا سکتا ہے لیکن اسے جس طریقے سے بھی کھایا جائے یہ ایک صحت بخش غذا کا لازمی حصہ ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انڈا ضروری غذائی اجزاءکا ایک گودام ہے، کچھ لوگ انڈے کی بھرپورغذائیت کی وجہ سے اپنا وزن بڑھنے کے ڈرسے اسے کھانے سے کتراتے ہیں، اس حوالے سے ڈائر یکٹر لا ئیو سٹاک پشاور ڈاکٹر معصوم شاہ کا کہنا ہے کہ ایک یا دو انڈے روزانہ کھانے سے وزن پر کو ئی اثر نہیں پڑھتا ، ایک انڈا تقریباً 80 کیلوریز اور5 گرام چکنائی پر مشتمل ہوتاہے، انڈے کی زردی انتہائی صحت بخش حصہ ہے ،انڈے کی 100 گرام زردی میں 1.33 گرام کولیسٹرول ہوتا ہے اس کے علاوہ انڈے میں وٹامن اے، وٹامن بی، کیلشیم، فاسفورس اورفولاد ہوتا ہے، انڈ ے کی سفیدی بھی کسی سے کم نہیں ہے اس میں ربوفلیون اور وٹامن بی ٹو موجود ہوتا ہے، یہ نشوونما، توانائی پیدا کرنے اور انسان کے بہت سے افعال کو درست رکھتا ہے، انڈا کمزور جسم اور بچوں کےلئے انتہائی مفید غذاءہے

انڈوں کی اقسام اور صوبے میں مرغی بانی کا کلچر:
انڈوں کی مختلف اقسام ہیں یہ گرام کے حساب سے فروخت کئے جا تے ہیں ، ان کی اقسام میں سنگل ، جمبو ، نارمل، سٹینڈر اور ڈبل زردی کے انڈے ما رکیٹ میں فروخت کئے جا رہے ہیں ، پنجاب لا ئے جانے والے انڈوں کی ماہر ڈاکٹروں کی نگرانی میں چیک کیا جاتا ہے ، پولڑی فارمز میںانڈے کے معیار کو مرغیوں کی غذاءاور بیماریوں کے مطابق جانچ پرتال کے بعد فروخت کیا جا تا ہے، صوبائی دارلحکومت پشاو رمیں مر غی بانی کی صعنت کلچر کا حصہ ہے دیہات میں مرغیوں کی افزائش ایک پرانی روایت کے طور پر کی جا تی ہے، پشاور میں مرغی بانی کے حوالے سے درجنوں دکانیں مو جود ہیں جہاں ان کی افزائش کےلئے اودیات فروخت کی جا تی ہیں جبکہ صوبے کے مختلف اضلاع میں پولڑی کی صعنت کے فروغ کےلئے سرکاری سطح پر پولڑی فارم موجود ہیں

پرغذائیت خوراک جدید تحقیق:
غذا میں پالک اور انڈے کی زردی کے استعمال کو زیادہ کرکے درمیانی عمر میں یاداشت کو اچھا رکھنے میں مدد حاصل کی جاسکتی ہے ،یہ غذائیں عمر کے ساتھ آنکھوں میں آنے والی تنزلی کی روک تھام کرتی ہیں، یہ بات غیر ملکی یونیورسٹی میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی، تحقیق کے مطابق ان غذاو¾ں میں پائے جانے والا جز لیوٹین چیزوں اور معلومات کو بہتر طریقے سے یاد رکھنے میں مدد فراہم کر تے ہیں جو کئی برس پہلے سے ذہن میں ہوتی ہیں۔تحقیق کے مطابق یہ جز دماغ کو تحریک دیتا ہے اور اس حصے کو تحفظ فراہم کرتا ہے جو یاداشت کو کنٹرول کرتا ہے،اس تحقیق کے دوران 65 سے 75 سال کی عمر کے 122 افراد کا جائزہ لیا گیا،نتائج سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں کے خون کے نمونے میں لیوٹین کی مقدار زیادہ ہوئی وہ یاداشت کے ٹیسٹ میں زیادہ بہتر کارکردگی دکھانے میں کامیاب رہے۔تحقیق کے مطابق لیوٹین سے بھرپور غذائیں دماغی ساخت پر اثرانداز ہوتی ہیں اور مختلف دماغی حصوں کو ورم وغیرہ سے متاثر نہیں ہونے دیتی ،اس سے قبل مختلف طبی رپورٹس میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ لیوٹین سے بھرپور غذائیں بینائی میں کمی کے حوالے سے بھی مددگار ثابت ہوتی ہیں،یہ غذائیں عمر کے ساتھ آنکھوں میں آنے والی تنزلی کی روک تھام کرتی ہیں،