شہزادہ فہد
مو سم بہار آتے ہی پشاور میں روایاتی تہوار پتنگ بازی عروج پر پہنچ جاتی ہے، پتنگ بازی ایک ایسا شغل ہے جو دنیا کے مختلف ممالک میں پایا جاتا ہے، ملک بھرمیں مقبولیت کی وجہ سے پتنگ سازی ایک چھوٹی صنعت کی شکل اختیار کر گئی ہے، ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں پتنگ بازی ہما رے کلچر کا حصہ ہے ، اسے مشغلہ کے ساتھ کھیل بھی کہا جاسکتا ہے ،یہاں تک کہ مختلف دیہاتوں میں تو پتنگوں کے میچ رکھے جاتے ہیں، اور ان کی خوب ذوق و شوق سے تیاری کی جاتی ہے، پتنگ کی ڈور کو تیز دھار بنایا جاتا ہے تاکہ پیچ لگتے ہی حریف کی پتنگ کاٹ دی جائے،بڑے شہروں میں تو پتنگ، مانجھا، اور چرخی وغیرہ خرید کر اس شوق کو پورا کیا جاتا ہے، جبکہ دیہاتوں میں پتنگ، مانجھا، اور چرخی خود تیار کی جاتی ہیں، پشاور میں مو سم بہار کی آمد کے ساتھ یکہ توت میں پتنگ بازی کا بازارلگ جاتا ہے جہاں پنجاب کے مختلف علاقوں سے منگوائی گئی پتنگ اور ڈور جیسے پشتو، ہندکو اور پنجابی میں مانجھا کہا جا تا ہے فروخت کی جا تی ہے ، لوکل مارکیٹ کے دکانداروں کا کہنا ہے کہ پتنگ اور مانجھا لاہور ، فیصل آباد، جھنگ اور دیگر شہروں سے منگوایا جاتا ہے ، اس وقت صوبے بھر میں یکہ توت میں پرچون کی واحد مارکیٹ ہے جس میں پتنگ بازی کاسامان فروخت کیا جاتا ہے ، مارکیٹ میں کا غذ کی بنائی جانے والی گڈی کی مختلف اقسام موجود ہیں جن میں پانچ روپے سے لے کر چار سو روپے تک کی گڈی فروخت کی جا تی ہے ، گڈی پر نقش و نگار اس کی قیمت دوگنا بنادیتے ہیں، دکانداروں کا کہنا ہے کہ پتنگ بازی سیزن کے طور پر لیا جاتا ہے سال میں صرف دو ماہ ہی ان کا کاروبار چلتا ہے ، ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں پتنگ بازی کا شوق صرف بچوں تک محدود ہے ،جس کی وجہ سے پتنگ بازی کا رجحان قدرے کم ہو رہا ہے ،بدقسمتی سے اس مشغلے کا کئی غیر قانونی طریقوں کے استعمال کی وجہ سے صدیوں پرانی روایت زوال ہو رہی ہے، پنجاب میں تو باقاعدہ طور پر پتنگ بازی پر پابندیاں عائد کردی گئی ہیں، خیبر پختونخوا میں پتنگ بازی پر کو ئی قدغین نہیںہے، پشاور کی پرچون مارکیٹ کے دکانداوں کا کہنا ہے کہ پشاور میں دھاتی منجھے کو کوئی نہیں جانتا ، یکہ توت میں پتنگ بازی کا سامان فروخت کرنے والے دکانداروں کی یونین کے ارکان باقاعدگی سے دکانوں کی چیکنگ کر تے ہیں جس میں ممنوع چیزیں ریکھنے کی ممانت کی جاتی ہے ،دنیا بھر میں پتنگ بازی کو ایک کھیل کے طور پر منایا جاتا ہے سرکاری سطح پر میلوں کے انعقاد سے نا صرف اس قدیم روایات کو تقویت ملتی ہے بلکہ غیر ملکی سیاحوں کو راغب کر نا کا سبب گردانہ جاسکتا ہے ،اگر پشاور میں بھی پتنگ بازی کے لیے سال میں ایک دفعہ کوئی کھلی جگہ مخصوص کردی جائے تو پتنگ بازی جو ہماری ثقافت کا حصہ بن چکا ہے، نہ صرف بچایا جاسکتا ہے، بلکہ غیر ملکی سیاحوں کے لیے باعث کشش ہوسکتا ہے جس سے سیکڑوں لوگوں کو روزگار مل سکتا ہے اور تفریح کے ساتھ ساتھ کثیر زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے ا اور پوری دنیا میں ہماری ثقافت متعارف کروائی جاسکتی ہے۔
نئی نسل بے خبر
نئی نسل ہاتھ سے بنائے جانے والے مانجھے سے ناآشنا ہے ، چائینہ سے تیار آنے والے کیمیکل جو کہ ما نجھے کا متبادل مانا جاتا جس سے ایک طر ف تو پتنگ بازی کی ساخت سے نقصان پہنچا ہے تو دوسری جانب سے نئی نسل کو ہاتھ سے بنائے جانے مانجھے سے نا واقف رکھنے کی وجہ ٹھرایا جاتا ہے ، ایک دہائی قبل پتنگ کو اڑانے والے مانجھے کی تیاری کچھ اس طرح کی جاتی ہے کہ سوتی دھاگے کی ریلیں یا گولا لیا جاتا ہے، اور اسے کسی بھی سہارے یا درختوں کے گرد گھما دیا جاتا ہے، جس طرح بجلی کی تاریں ایک کھمبے سے دوسرے کھمبے تک لگائی جاتی ہیںاور مچھلی سریش اور شیشے کی بنائی جانے والے محلول کو دھاگے پر گزار جاتا ہے ،مرحلے کے ختم ہونے کے بعد ان دھاگوں کو سوکھنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے، جب یہ دھاگے اچھی طرح سوکھ جاتے ہیں تو پھر اسے چرخی پر یا ایک گولے کی شکل میں لپیٹ لیا جاتا ہے اور جب یہ تیار ہوتا ہے تو اس کی دھار کو چیک کرنے کے لیے اس تیار مانجھے کو کسی دوسرے مانجھے سے ٹکرایا جاتا ہے، معمولی سی رگڑ سے دوسرے مانجھے کو کاٹنے والے مانجھے کو تیز قرار دیا جاتا ہے
پتنگ بازی تاریخ
پتنگ کو اڑتے یا اڑاتے دیکھیں تو یہ سوال ذہن میں ضرور آتا تھا کہ سب سے پہلے پتنگ کس نے بنائی ہوگی، اور اسے یہ بنانے کی کیا سوجھی ہوگی یا پھر جب پہلی بار پتنگ بنائی گئی ہوگی، تو وہ اسی شکل کی ہوگی وغیرہ وغیرہ،جب اس بارے میں معلومات اکٹھا کرنا شروع کی تو بہت ہی دلچسپ اور حیران کن معلومات میسر آئیں،تاریخِ عالم میں پتنگ اڑانے کا اولین تحریری حوالہ سن 200 قبل مسیح میں ملتا ہے جب چین میں سپہ سالار ہان سینگ نے دشمن کے ایک شہر کے باہر پڑاو¿ ڈال رکھا تھا، لیکن وہ براہِ راست حملے کا خطرہ مول لینے کے بجائے ایک سرنگ کھود کر شہر میں داخل ہونا چاہتا تھا۔ لیکن اسے یہ اندازہ نہیں ہورہا تھا کہ سرنگ کتنی لمبی کھودنا پڑے گی، اس لیے اس نے پڑاو¿ کے مقام سے شہر کی فصیل تک کا فاصلہ ناپنے کی ٹھانی،اس نے دیکھا کہ ہوا اس سمت کی ہی چل رہی ہے جہاں وہ سرنگ کے ذریعے حملہ آور ہونا چاہتا ہے اور وہ یہ دیکھ رہا تھا کہ اس کے پڑاو¿ والے علاقے سے اس جانب ہوا کے ساتھ کاغذ اڑتے جاتے ہیں۔ بس یہ دیکھ کر اس نے ایک کاغذ لیا، اور اس میں ایک درخت کے چند تنکے باندھ دیے تاکہ اسے ہوا کا دباو¿ حاصل ہو سکے جو اس کے اڑنے میں مدد گار ثابت ہو، اور پھر ایک لمبے دھاگے کی مدد سے اسے اڑا دیا،جب وہ کاغذ مطلوبہ مقام تک پہنچ گیا تو اسے ناپ کر واپس کھینچ لیا، اور ڈور کو ناپ کر فاصلہ معلوم کر لیا، یہی دنیا کی پہلی پتنگ تھی، جو ایک جنگی مقصد حاصل کرنے کے لیے اڑائی گئی تھی۔ پھر قدیم چین میں پتنگ سازی فوجی استعمال کے لیے کی جانے لگی، جس میں فوج کا جاسوسی کا کام بھی تھا۔ اپنے ہی فوجیوں کو ایک پڑاو¿ سے دوسرے پڑاو¿ تک پیغام رسانی، اور اپنے ساتھیوں کو اپنی پوزیشن بتانے کے لیے پتنگیں اڑائی گئیں، اور حیران کن بات یہ ہے کہ چھوٹے ہتھیار تک ایک جگہ سے دوسری جگہ ان پتنگوں سے پہنچائے گئے،پھر اس کے بعد چین سے پتنگ سازی کا یہ فن کوریا پہنچا۔ وہاں بھی ایک جرنیل کی کہانی ملتی ہے، جس کی فوج نے آسمان پر ایک تارا ٹوٹتے دیکھا، اور اسے برا شگون سمجھ کر میدانِ جنگ سے منہ موڑ لیا۔ جرنیل نے اپنی فوج کا وہم دور کرنے کے لیے سپاہیوں کو بہت سمجھایا بجھایا لیکن وہ مان کر نہ دیے۔ آخر جرنیل نے ایک ترکیب سوچی۔ اس نے ایک بڑی سی سیاہ پتنگ تیار کی، اور اس کی دم سے ایک شعلہ باندھ کر رات کے اندھیرے میں اسے اڑایا تو فوج کو یقین آگیا کہ آسمان سے جو تارا ٹوٹا تھا وہ واپس آسمان کی طرف لوٹ گیا ہے، اور اس طرح محض ایک پتنگ کے زور پر جرنیل نے اپنی فوج کا حوصلہ اتنا بلند کر دیا کہ وہ لڑائی جیت گئی،فوج کے بعد یہ کارگر نسخہ بدھ راہبوں کے ہاتھ لگا جو بدروحوں کو بھگانے کے لیے عرصہء دراز تک پتنگوں کا استعمال کرتے رہے۔
خیبر پختونخوا میں بنائی جانے والی پلاسٹک شاپر کی منفرد پتنگ
کہتے ہیں ضرورت ایجاد کی ماں ہے، خیبر پختونخوا میںپلاسٹک شاپر سے بنائی جانے والی پتنگ کی مثال نہیں ملتی اس کو بھی ضرورت کے تحت ایجاد کیا گیا ،گھر میں پلاستک شاپر اور جھا ڑوں کے تیلوں سے بنائی جانے والی پتنگ پر کو ئی روپے خرچ نہیں ہو تے، دنیا بھر میں پلاسٹک سے بنائی جانے والی مفت کی پتنگ صرف اور صرف خیبر پختونخوا میں بنانے کا رواج ہے، مشرقِ بعید سے پتنگ بازی کا مشغلہ کب اور کس طرح برصغیر پاک و ہند پہنچا، اس بارے میں تاریخ کوئی واضح اشارہ نہیں دیتی، البتہ اس ملک میں پتنگ بازی کی اولین دستاویزی شہادتیں مغل دور کی مصوری میں دکھائی دیتی ہیں،سولہویں صدی کی تصویروں میں اکثر یہ منظر دیکھا جا سکتا ہے کہ عاشقِ زار اپنے دل کا احوال کاغذ پر لکھ کر ایک پتنگ سے باندھتا ہے، پھر یہ پتنگ ہوا کے دوش پر سوار ہوکر کوچہءمحبوب کی فضاو¿ں میں پہنچتی ہے اور معشوقہءدلنواز کی چھت پر منڈلانے لگتی ہے،
گیتوں اور نغموں میں پتنگ کا استعمال اور عقائد
پتنگ بازی کو پشتو ، اردو اور پنجابی گیتوں میں شو ق و زوق سے استعمال کیا گیا ، فلموں اور ڈراموں پتنگ بازی کے بارے میں مختلف گیت اس کی عکاسی کر تے ہیں، چینیوں کے پتنگ کے بارے میں حیران کن اور دلچسپ عقائدہیں کہ پتنگ جتنی اونچی اڑے گی آپ کی پریشانیاں آپ سے اتنی ہی دور ہوجائیں گی، کسی کی چھت پر کٹی پتنگ گرجائے تو اسے بدشگونی سمجھا جاتا ہے، اور اس پتنگ کو پھاڑ کر جلادیا جاتا ہے، چین اور کوریا سے ہوتا ہوا جب پتنگ بازی کا یہ فن جاپان پہنچا تو عوام میں اتنا مقبول ہوا کہ جاپان میں ایک سخت قانون نافذ کر دیا گیا جس کے تحت صرف شاہی خاندان کے افراد، اعٰلی سِول اور فوجی افسران، اور چند مراعات یافتہ معزز شہریوں کو پتنگ اڑانے کی اجازت دی گئی۔