Tag Archives: day

Leather industry and Animal sacrificial skins چمڑے کی صنعت اور قربانی کی کھالیں

شہزادہ فہد

ملکی معیشت میں ریڑی کی ہڈی کا کردار ادا رکرنے والی چمڑے کی صنعت عیدا لاضحی پر زبوں حالی کا شکار ہوگئی ، کھالوں کے ریٹ کم ہونے سے تاجر پریشان اربوں رپوں کا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے ، حکومت کی جانب سے ٹیکسوں کی بھرمار کی وجہ سے غیر ملکی کمپنیوں نے بھی منہ موڑ لیا ، صوبائی دارلحکومت پشاور میں عید الاضحی کے بعد مختلف مقاما ت پر کھالوں کی منڈیاں سج جاتی ہیں تاہم اس بار گزشتہ سال کی نسبت کھالوں کے نرخوں میں کمی واقع ہونے سے چمڑے کے کاروبار سے وابستہ تاجر عیدالاضحی پر منافع کی بجائے نقصان اٹھانے لگے ہیں، مقامی تاجروں کے مطابق خریداری اور فروخت پر اضافی ٹیکس کی وجہ سے کھالوں کے نرخوںمیں کمی کی گئی ہے اسی طرح ملکی سطح کے بڑے تاجربھی بڑی تعداد میں کھالوں کی خریداری نہیں کررہے ، کیونکہ بیرون ملک کھالوں کی بر آمد دات پر اضافی ٹیکسوں کی ادائیگی پر ڈیل نہیں کی جارہی ہے، پشاور میں چمڑافروشی کے کاروبار کےلئے عید الاضحی پر قصاب خانہ ، رنگ روڈ ، لنڈی سٹرک اور سینما روڈ پر منڈیاں لگائی جاتی ہیں، جہاں صوبے بھر سے قربانی کے جانوروں کی کھالیں فروخت کے بعد اکٹھی کی جاتی ہیں جو کہ بعدازاں پنجاب اور دیگر صوبوں میں پڑے پیمانے پر فروخت کی جاتی ہیں ، رواں سال نرخوں میں کمی ہونے سے ملی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ، گزشتہ سال گائے کی کھال 15 سو روپے سے 25سو روپے تک فروخت ہوئی ، اس سے دوسال قبل قیمتیں 2 ہزار سے4 ہزار تک تھی ، اسی طرح رواں سال بکرے اور دنبے کی کھال20 روپے میں فروخت ہورہی ہے جو کہ گزشتہ سال 150 سے 250 روپے تک فروخت ہوتی تھیں، قیمتوں میں کمی ہونے کی دیگر وجوہات میں ملکی سطح پر چمڑے کی فیکٹریوں اور غیر ملکی سطح پر چمڑے کی فیکٹریوں کی خریداری میں عدم دلچسپی بنائی جاتی ہے،چمڑے کے تاجروں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ چمڑے کے کاروبار سے منسلک افراد کی مشکلات کا ازالہ کیا جائے ۔

پاکستان کا شمار دنیا بھر میں سب سے زیادہ قربانی کے جانوروں کی کھالیں برآمد کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے

پاکستان میں رواں سال عیدالاضحی پر لاکھوں قربانی کے جانور ذبح کئے گئے ، پاکستان کا شمار دنیا بھر میں سب سے زیادہ قربانی کے جانوروں کی کھالیں برآمد کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے ، یہ قربانی کی کھالیں کوریا، چاپان،جرمنی، امریکہ ،یورپ، چین اور دیگر ممالک بر آمد کی جاتی ہیں،، خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان سے قربانی کی کھالیں پنجاب کے چمڑے کی فیکٹریوں کو بھجوائی جاتی ہیں، جہاں کھالوں کی فینشنگ کرکے چمڑے کی مصنوعات بنائی جاتی ہیں

 

قربانی کی کھال کو محفوظ بنایا جاررہا ہے

دنیا بھر میں چمڑے سے بنی ہوئی چیزیں پسند کی جاتی ہیں ،جنھیں مہنگے داموں فروخت کرکے کثیر زرمبادلہ کمایا جاتاہے

چمڑے سے بننے والے اشیاءمیں لیدر جیکٹس، بیگز، سیٹ کورز، جوتے ، کاسلیٹکس اور دیگر اشیاءشامل ہیں اسی طرح چمڑے سے ربڑ بھی تیار کیا جاتا ہے ، جس سے ٹائر م ٹیوب، اور دیگر اشیاءبنائی جاتی ہیں ، حکومت اگر پاکستان میں چمڑے کے کاروبار کرنے والوں کو خصوصی مراعات فراہم کرے تو پاکستانی معیشت کو بہتر کیا جاسکتا ہے ۔

کھالوں کے کاروبار سے وابسطہ تاجر نہیں ہی دینی مدارس بھی متاثر ہونگے

پشاور سمیت صوبہ بھر میں قربانی کے جانوروں کے کھالوں کی قیمتوں میں کمی سے جہاں کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا وہاں کھال کی قیمتیں گرنے کے باعث مختلف سماجی ادارے ، مدارس کو دیئے جانے والے کھالوں سے منتظمین کو مالی مشکلات کاسامنا کرنا پڑا ، پشاور میں قائم ایک دینی مدرسے کے طالب علم عصمت اللہ فقیرکا کہنا ہے کہ کھالوں کی آمد ن سے تین ماہ سے پانچ ماہ تک مدرسے کا لنگر اور دیگر امور میں مدد ملتی تھی تاہم اس مرتبہ انھیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا،ا نھوںنے صوبائی حکومت سے دینی مدارس کو خصوصی پیکج دینے کا مطالبہ کیا ہے ، کھالوں کی قیمتیں گرنے کے باعث ان کے اکٹھے کرنے کی سرگرمیاں بھی کم رہیں

Peshawar journalist unemployment

2018
صحافیوں کے لئے بھاری رہا،5قتل،درجنوں بے روزگار کئے گئے

پشاور میں مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز سے وابستہ193 سے زائد افراد کو نوکریوں سے فارغ ،بیشتر اداروں میں کارکنوں کی تنخوا ہوں اور مراعات سے کٹوتی کی گئی

گزشتہ سال پاکستانی میڈیا بدترین دورسے گزرا بڑے بڑے میڈیاہاوسز ڈاون سائزنگ کی زد میں رہے، پی ایف یو جے کی کال پر احتجاجی مظاہرے ہوئے

نئے سال کا چڑھتا سورج بھی اچھی نوید لے کر نہیں طلوع نہیں ہوا، پہلے ہی ہفتے 13کارکن فارغ کردئیے گئے ۔

 گزشتہ سال 2018کو ملک کے لئے تبدیلی اور خوشحالی کا سال قرار دیا جاتا ہے وہاں شعبہ ابلاغ عامہ سے تعلق رکھنے والے افراد پر بھاری گزرا، گزشتہ سال صوبے بھر میں پانچ صحافیوں کوقتل کیا گیا جبکہ پشاور میں مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز سے وابستہ193 سے زائد افراد کو نوکریوں سے فارغ کیا گیا ، ان میں52 سے زائد افراد کا تعلق رپورٹنگ اور سب ایڈیٹنگ سے تھا اسی طرح بیشتر اداروں میں کارکنوں کی تنخوا ہوں اور مراعات سے کٹوتی کی گئی ، 2019 کا پہلا ہفتہ بھی شعبہ صحافت و ابلاغ عامہ کے کارکنوں کےلئے پر امید ثابت نہ ہوا،گزشتہ سال شعبہ ابلاغ عامہ سے تعلق رکھنے والوں کےلئے مشکل ترین گزرا ، خیبر پختونخوا میں فرائض منصبی کے دوران پانچ صحافیوں کو قتل کیا گیا ،11 جون کو ہری پور میں نجی ٹی وی کے رپورٹر بخشش الہیٰٰ کو جرائم پیشہ افراد کے خلاف خبر دینے کی پاداش میں قتل کیا گیا ،اس طرح 11 اکتوبر کو صوابی میںنامعلوم افراد کی جانب سے ہارون خان کو گھر کے قریب نشانہ بنایا گیا ، اکتوبر کے مہینے میں دو صحافیوں کو قتل کیا گیا جن میں سہیل خان کو 16 اکتوبر کو ہری پور اور 30 اکتوبر کو چارسدہ میں احسان اللہ شیرپاو¾ کو موت کے گھاٹ اتارا گیا،سال کے آخری مہینے میں نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے صحافی نورالحسن کو کیمرہ مین کے ہمراہ پشاو رکے رنگ روڈ پر ٹارگٹ کیا گیا حملے میں نورالحسن جانبر نہ ہوسکے ، قتل اور ٹارگٹ کے ساتھ ساتھ شعبہ صحافت و ابلاغ میں صحافیوں کا معاشی قتل بھی جاری رہا ، پشاور میں مختلف اخبارات اور چینلز کے193 ملازمین کو نوکریوں سے جبری برخاست کیا گیا جن میں 50 افرا دکا تعلق رپورٹنگ اور سب ایڈیٹنگ سے شعبے سے تھا ، سلسلہ رکا نہیں بیشتر میڈیا ہاوسز میں رپورٹرز اور سب ایڈیٹرز کی ماہانہ تنخواہوں میں کافی حد تک کٹوتی کی گئی، رپورٹنگ، کیمرہ ورک ، اسائمنٹ اور فوٹوگرافی سمیت دیگر فرائض سرانجام دینے والے ملازمین سے فیول، موبائل چارجز اور دیگر مراعات واپس لی گئیں،بیشتر بڑے گروپس کے ملازمین کو تاحال کئی ماہ کی تنخواہوں کی ادائیگی بھی تاحال نہیں کی گئی ، گزشتہ سال سے جاری ملک بھرکے میڈیا ہاو¿سز میں ایک کہرام کی کیفیت ہے، وہ صحافی ،اور کارکن جو طویل عرصہ سے ان اداروں کے ساتھ وابستہ تھے وہ بے روزگار کر دیئے گئے ہیں، گزشتہ سال پاکستانی میڈیا تاریخ کے بدترین دورسے گزرا،سینکڑوں صحافیوں کو بے روز گار کردیاگیا اور بڑے بڑے میڈیاہاوسز ڈاون سائزنگ کی زد میں ہیں،وہ اخبار جن کے بارے میں کوئی تصور بھی نہیں کرسکتاتھاکہ وہ بحران کی زدمیں آئیں گے یابند کردیئے جائیں گے اپنی بقاءکی جنگ لڑتے دکھائی دے رہے ہیں،ملک بھر میں صحافیوں کی نمائندہ تنظیم پی ایف یو جے کی کال پرملک بھر میں صحافیوں نے احتجاجی مظاہرے کئے اور کارکنوں کے معاشی قتل عام پراحتجاج کیا، پشاور سمیت ملک بھر میں صحافتی شعبے سے وابستہ افراد نئے سال کی آمد پر معاشی استحکام کےلئے پر امید تھے کہ اس دوران نئے سال کے پہلے ہفتے میں روزنامہ ایکسپریس سے پانچ سب ایڈیٹرز ، کی بنچ آپریٹر اور پیج میکر سمیت 13 افراد کو نوکری سے فارغ کیا گیا ، پشاور میں جنگ میڈیا گروپ سے8 رپورٹر، سب ایڈیٹر ز سمیت مجموعی طور پر 70 کارکنوں ،کیپٹل نیوز سے2 رپورٹرز، 2 کیمرہ مین سمیت6 ،دنیا نیوز سے3 کیمرہ مین سمیت 13،آج نیوز سے 2 رپورٹرز،اخبار خیبر سے 9 سب ایڈیٹرز اور 7 رپورٹر سمیت42 کارکنوں ایکسپریس میڈیا گروپ میں روزنامہ ایکسپریس میں5 رپورٹرز ،5 سب ایڈیٹرز اور 2 فوٹو گرافر ، ایکسپریس ٹریبیون سے 6 رپورٹرز ،تین سب ایڈیٹرزاور ایک فوٹو گرافر سمیت 69 کارکنوں کو نوکری سے فارغ کیا گیا ہے اسی طرح 24  نیوز سے بھی 2رپورٹر سمیت کارکنوں کو گھر بھیجا گیا ۔

Mahabat Khan Mosque Condition unspecified flow

شہزادہ فہد
مغلیہ دور حکومت میں بنائی جانی والی تاریخی اہمیت کی حامل مسجد مہابت خان کی حالت ناگفتہ بہہ ہو گئی ، حکومتی عدم توجہ کے باوجود مغل طرز تعمیر کا شاہکار صدیوں پرانی مسجد اپنی تاریخی حیثیت برقرار رکھے ہو ئے ہے، مسجد کے اطراف میں بنائی جانےوالی غیر قانونی دکانیں پلازے مسجد کی تا ریخی حیثیت پر اثر انداز ہو نے لگے ہیں، مختلف قوموں کی پشاور پر حکمرانی کی گواہ مسجد جو زلزلوں اور موسم کی شدت کو تو سہہ گئی تاہم انسانوں نے مسجد کے قریب غیر قانونی تعمیرات کر کے مسجد کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا، مسجد کے قریب پلازوں اور دکانوں کی آباد کاری سے مسجد کی بنیادیں کھوکھلی ہو گئی ہیں جسکی وجہ سے مسجد کی دیواریں کسی بھی وقت منہدم ہو سکتی ہیں، صحن کا فرش اور کئی حصے بیٹھ چکے ہیں ، مسجد کو نمی اور قدرتی آفات سے محفوظ بنانے کےلئے9فٹ اونچائی پر بنایا گیا تھا اور اطراف میں بر آمدے بنائے گئے تھے جس پر دکاندار قابض ہو گئے ہیں اور دکانوں کو وسیع بنانے کےلئے کھدائی کی گئی ہے جس سے مسجد کی دیواریں اور فرش بیٹھ گیا ہے، صدیوں سے آباد پشاور شہر کی تاریخ صرف کتابوں میں ہی نہیں ملتی بلکہ اس کے ثبوت بھی موجود ہیں، یوں تو پشاور بھر میںدرجنوں مقامات ہیں جس سے اس خطے میں آباد رہنے والی قوموں بارے آگاہی ملتی ہے ، ان میں سے ایک مسجد مہابت خان بھی ہے جو کہ مغل طرز تعمیر کا ایک شاہکار ہے ، پشاو رمیں واقع تاریخی اہمیت کی حامل قدیم مسجد مہابت خان حکومتی عدم توجہی کا شکار رہی ہے ، کئی حکومتیں گزر گئی تاریخی حیثیت کے حامل مسجد کی حفاظت کے لئے کسی بھی دور حکومت میں جامع حکمت عملی نہ بنائی جاسکی ،مسجد کے اطراف میں قائم دکانیں اورپلازے انٹکویٹی ایکٹ کی خلاف ورزی ہونے کے ساتھ تاریخی مسجد کی بقاءکےلئے خطرہ ثابت ہو نے لگے ہیں،اس حوالے سے محکمہ آثار قدیمہ کے فوکل پرسن نواز الدین صدیقی کا کہنا تھا کہ مسجد کی اصل حالت برقرار رکھنے کےلئے اقدامات شروع کر دئیے گئے ہیں، پہلے مرحلے میں ناز سینما روڈ پر پانچ پانچ دکانوں کو خالی کرایا جائےگا،حکومت کی جانب سے مسجد کی مرمت و بحالی کےلئے 8 کروڑ 77 لاکھ روپے کا فنڈجاری کیا گیا ہے جس میں رواں سال 2کروڑ روپے جون کے مہینے تک خرچ کئے جائینگے، دوسری جانب مسجد کے اطراف میں قائم تجاوزات اور مسجد کی دکانوں میں موجود کرائے داروں کے باعث کام سست روی کا شکار ہے، دکانوں کو خالی کرانے کےلئے تمام تاجروں کو نوٹسز جا ری کر دئیے گئے تاہم تاجروں کی جانب سے مرحلہ دار دکانیں خالی کر انے کا مطالبہ کیا گیا ہے ، مسجد کی عمارت کو محفوظ بناکر اس کی تاریخی اہمیت کو بحال رکھا جاسکتا ہے جو کہ وقت کی اہم ضرورت ہے ۔

مسجد مہابت خان کسی شخصیت کا نام نہیں تھا بلکہ یہ کابل ، پشاور کے گورنر کا لقب تھا۔
پشاور میں واقع تاریخی مسجد مہابت خان کا نام مغلیہ حکمران یا کسی اہم شخصیت کے نام سے منسوب نہیں گیا ، مہابت خان کابل اور پشاو رکے گورنرلقب تھا جوکہ چار صدی قبل باپ بیٹے کو دیا گیا تھا ،مغل بادشاہ شاہ جہان اور اورنگزیب کے دور حکومت میں زمانہ بیگ کو کابل اور پشاو رکا گورنر نامزد کیا گیا ، زمانہ بیگ کی وفات کے بعد ان کے بیٹے مرزا لوراسپ کو 1658 ءمیں گورنر نامزد کیا گیا جنھوں نے مسجد مہابت خان کی تعمیر میں دلچسپی لی اور دو سال میں مسجد کی تعمیر مکمل کی ۔

مسجد کی تعمیر میں دال چاول انڈے پیس کر میٹریل میں مکس گئے تاکہ مضبوطی کافی عرصہ تک قائم رہے چونے اور کنجور سٹون بھی استعما ل کیا گیا۔
مسجد مہابت خان انجنیئرنگ کے لحاظ مغلیہ دور حکومت کی بہترین تعمیرات کا شاندار نمونہ ہے ، مسجد کو سیم سے محفوظ رکھنے کےلئے اونچائی پر بنا یا گیا ، مسجد کی عمارت کے نیچے مٹی کی بھرائی کی گئی اور مسجد کے باہر کھلے برآمدے بنائے گئے ، تاکہ مسجد قدرتی حادثات سے محفوظ رہے، مسجد کی عمارت زمین سے 9 فٹ اونچائی پر بنائی گئی ، مسجد کی تعمیر میں چونے اور کنجور سٹون کا استعمال کیا گیا ، مختلف دیواروںمیں دال چاول انڈے پیس کر تعمیراتی میٹریل میں مکس کئے گئے ، مسجد کی دیواروں پر اسلامی پینٹنگ (سٹکو) اور کھڑکیوں میں رنگین شیشے لگائے گئے ۔

 

TENANT INFORMATION FORM (TIF)

شہزادہ فہد
اگر آپ نے ڈاکہ نہیں ڈالا ، چوری نہیں کی ، منشیات فروشی میں بھی ملوث نہیں ہیں کسی کو قتل بھی نہیں کیا لیکن اگر آپ کرائے کے گھر میں رہتے ہیں تو آپ مجرم ہیں ، جی ہاں آپ ٹیچنگ جسیے مقدس شعبے سے وابسطہ ہیں یا محنت مزدری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں لیکن آپ کا ذاتی گھر نہیں ہے تو آپ کی کوئی عزت نہیں ، آپ کو آدھی رات کو گھر سے نکال کر تھانے لایا جائے گا ، تعلق نہ ہوتو ساری رات حوالات میں بھی بند پڑے رہیں گے، پھر عدالتوں کے چکر اور نجانے کیا کیا ، ذلت و خوار ہونے کے بعد پتہ چلا کہ کرائے کے گھر میں مقیم ہو نے اور پولیس کوکوائف جمع نہ کر نے آپ کو سزاملی ، صوبائی حکومت کی جانب سے دہشت گردوں کو پناہ دینے کی پاداش میں بنائے جانے والا 10 تحفظ آرڈینس پاکستان  بلا شعبہ اگر بہترین ایکٹ ہے ، اس سے جہاں سیکورٹی اداروں اور پولیس کو ایرے غیرے کی موجودگی کا پتہ چلتا ہے تو وہاں کسی بھی ناخشگوار واقعہ کے بعد ملزموں تک آسانی پہنچا جاسکتا ہے ، ایکٹ کی افادیت اپنی جگہ لیکن جو طریقہ کار اپنایا گیا ہے اس پر مجھ سمیت ہر کرائے کے گھر میں مقیم شہری کوتحفظات ہیں ، ہر سیاسی حکومت اپنے دور میں کئے گئے کارناموں کو بڑھا چڑھا کر پیش کر تی ہے اوراس مدد میں لاکھوں کروڑں روپے خرچ کئے جاتے ہیں،بلوچستان کے بعد دوسرے نمبر دہشت گردی سے متاثر صوبے خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت سوشل میڈیا پر چھائی ہو ئی ہے، اب تو جوں جوں الیکشن قریب آتا جارہا ہے صوبائی حکومت نے اخبارات پراشتہارات کی جیسے بارش کر دی ہو ،آئے دن کچھ نیا کرنے کا دعوی ٰ سننے کو ملتا ہے ، چلیں چھو ڑیں موضوع پر آتے ہیں ، بات 10 تحفظ آرڈینس پاکستان  کی ہو رہی ہے ، بہت سے لوگوں شائداس سے ناآشنا ہیں لیکن کرائے کے گھر وں میں مقیم شہریوں کےلئے یہ ایسا ہی ہی جیسے محلے میں کسی نے خیرات کی ہوں ، حکومت کی جانب سے بنائے گئے ایکٹ کے بعدموثرآگاہی مہم نہ ہو نے کی وجہ سے10 تخفظ آرڈینس پاکستان قانون پر شہری عمل درآمد کرنے سے گریزاں ہیں، چار سالوں کے دوران آرڈینس کے تحت 10ہزار سے زائد غیر رجسٹرڈ کرائے کے گھروں میں مقیم 27ہزار سے زائد شہریوں کو گرفتار کیا گیا ،تھانہ اور کچہری کے چکرکھانے کے بعد 24 ہزار سے زائد شہریوں نے خود کو رجسٹرڈکروایا، حکومت کی جانب سے دہشت گردوں کو پناہ دینے پر 10 تحفظ آرڈینس پاکستان کے نا م سے قانون بنایا گیا ، صوبے میں سب سے پہلا مقدمہ پشاور کے کوتوالی تھانے میں درج ہوا ، کوتوالی کی حدود میں گرفتار ہونے والے دہشت گرودں کو پنا ہ دینے کے جرم میں یہ مقدمہ 5 مئی 2014 ءکو درج کیا گیا، ایکٹ میں کرائے کے مکان میں رہائش پذیر شہریوں کو پولیس کے پاس کوائف جمع کرنے کا پابند بنایا گیاتھا، تاہم موثر آگاہی مہم نہ ہونے کی وجہ سے شہریوں نے قانون پر عمل درآمد نہیں کیا شائد وہ اس کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال سے واقف نہ تھے، بھر اچانک دہشت گردی کی لہر میں اضافے کے بعد 2014 ءمیں 10 تحفظ ارڈینس پاکستان پر پولیس کی جانب سے کریک ڈاون شروع کیا گیا، سرچ و ٹارگٹ آپریشنز کے دوران مطلوبہ کوائف پیش نہ کرنے پر چار سالوں میں 10103 مکانات میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر 27433 شہریوں کو گرفتار کر کے ان کے خلاف مقدمہ درج کئے گئے ، اور انھوں نے حوالات کی ہوا کھائی تو عقل ٹھکانے آئی جسکے بعد 24587 افراد نے پولیس کے پاس اپنے کوائف جمع کرائے ،یقین جانیں کہ ایکٹ پر بات نہیں کی جارہی ،بات تو پولیس رویئے اور نا مناسب حکمت عملی پر ہو رہی ہے ، ایک مہذب شہری کے حقوق کے لئے ہو رہی ہے،اب ہم سارا ملبہ پولیس پر تو نہیں ڈال سکتے ، ہمیں خود بھی چاہیے کہ ایک اچھے اورمحب وطن شہری ہو نے کے ناطے اپنے کوائف جمع کروائیں ، پولیس بیچاری کیاکر ے علاقے میں جرائم پر قابو پانا ہے امن و امان کی صورت حال کنٹرول کرنی ہے ، یہ مہم وہیم کے چکر میں پڑ جائے تو سارے کام رہ جائیں گے، تو بزرگوں ، یاروں اور پیاروں لائن میں لگ جاو ، سب آپ نے ہی کر نا ہے۔

۔

چار سالوں کے دوران آرڈینس کے تحت 10ہزار سے زائد غیر رجسٹرڈ کرائے کے گھروں میں مقیم 27ہزار سے زائد شہریوں کو گرفتار کیا گیا

دہشت گردی کی لہر میں اضافے کے بعد 2014 ءمیں 10 تحفظ آرڈینس پاکستان پر پولیس کی جانب سے کریک ڈاون شروع کیا گیا تھا

 

Khyber pukhtoon khwa Culture Policy

 

شہزادہ فہد
خیبر پختونخوا کلچر پالیسی نہ بن سکی،سنسر شپ بورڈ منصوبہ بھی کھٹائی میں پڑگیا
ء2010 میں اٹھار ویں ترمیم کے بعد صوبے میں کلچر کے فروغ کےلئے پالیسی بنانے کا فیصلہ کیا گیا، 2011 ءمیں صو با ئی اسمبلی میں ڈرافٹ پیش کیا گیا جو کہ تاحال زیرگردش ہے
ء2013 میں تحریک انصا ف کی حکومت کا قیام بھی صوبے میں کلچر پالیسی کےلئے سود مند ثابت نہ ہو سکا، سنسر بورڈ کےقیام کے لئے دو سال سے صرف اجلاس ہی منعقد کئے گئے

خیبر پختونخوا اسمبلی سے ڈیڑھ سو کے قریب بل منظور کروانے والی تحریک انصاف کی حکومت چار سالوں میں کلچر پالیسی نہ بناسکی ، اٹھارویں ترمیم میںاختیار ملنے کے باوجودخیبر پختونخوا میں کلچر پالیسی کا قیام سر خ فیتے کی نظر ہو گئی ، کلچر پالیسی کے ساتھ حکومت کا اعلان کر دہ سنسر شپ بورڈ کے قیام کا منصوبہ بھی کھٹائی میں پڑ گیا ہے ، 2010 ءمیں اٹھا ویں ترمیم کے بعد خیبر پختونخوا میں اے این پی اور پیپلز پا رٹی کی مخلوط حکومت میں فیصلہ کیا گیا کہ صوبے میں کلچر کے فروغ کےلئے پالیسی بنائی جا ئے اس ضمن میں 2011 ءمیںصو با ئی اسمبلی میں ڈرافٹ پیش کیا گیا جو کہ تاحال گردش میں ہے ، 2013 ءمیں تحریک انصا ف کی صوبے میں کامیابی بھی کلچر پالیسی کےلئے سود مند ثابت نہ ہو سکی ، موجودہ حکومت دوسالوں نے صوبے میں سنسر بو رڈ کے قیام کے لئے مشاورتی اجلاس کا انعقاد کررہی ہے ، دوسال قبل کلچر پالیسی اور سنسر بورڈ کے حوالے سے ایک اجلاس منعقد کیا گیا تھا جس میں سیکرٹری محکمہ سیاحت ، ثقافت ، کھیل و آثار قدیمہ اعظم خان، ایڈیشنل سیکرٹری محمد طارق ،ڈپٹی ڈائریکڑ کلچر اجمل خان ،مسرت قدیم ، شوکت علی ، رحمت شاہ سائل ، طارق جمال ، فلم ڈائریکٹر قیصر صنوبر ، مشتاق شباب ، نجیب اللہ انجم سمیت پروفیسرز، فن موسیقی ، ڈائریکٹر ، پروڈیوسرز ، ثقافت سے منسلک افراداور سول سوسائٹی کے عہدیداران نے کثیر تعداد میں شرکت کی تھی، سنسر شپ بورڈ کے قیام پر شرکا ءکامطالبہ تھا کہ بل پیش کر نے سے قبل پالیسی بنائی جا ئے تاکہ ایک ڈائر یکٹر فلم یا ڈارمہ بنانے سے قبل تمام تر چیزوں کا خیال رکھے اور فلم سنسر بورڈ کو انڈسٹری کو درجہ دیا جائے گا تب ہی یہاں ترقی ممکن ہو گی، اجلاس سیکرٹری محکمہ سیاحت ، ثقافت ، کھیل و آثار قدیمہ اعظم خان نے فلموں اور ڈراموں کے حوالے سے سنسر بورڈ کا قیام کووقت کی اشد ضرورت قرار دیا تھا، ذرائع کے مطابق دو سالوں سے متعدد بار میٹنگز کے انعقاد اور حکومتی عدم دلچسپی کے باوجود تاحال اس پر کوئی عمل درآمد نہ ہوسکا ،فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے صدارتی ایواڈ یافتہ اداکار نجیب اللہ انجم نے بتایاکہ کلچر پالیسی خیبر پختونخوا میں محکمہ ثقافت کا وجود بے مقصد ہے ، کلچر پالیسی اور سنسر بورڈ نہ ہو نے کی وجہ سے خیبر پختونخوا میں انڈسٹری ختم ہو کر رہ گئی ہے ، سی ڈی ڈراموں میں فحاشی و عریانی نے معاشرے پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں ، ان کا کہنا تھا کہ کلچر پالیسی اور سنسر بورڈ کے قیام کے حوالے سے اپنی تجاویز سیکرٹری کلچر کو بھیجی تھی تاہم کو ئی رسپونس نہیں آیا اور آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں کو ئی اطلاعات نہیں دی گئی ،اس حوالے سے معروف اداکار باطن فاروقی کا کہنا تھا کہ کلچر پالیسی کے قیام کےلئے حکومتی سنجیدگی سے کام لینا ہو گا ، ان کا کہنا تھا کہ دیگر شعبوں کی طرح فنکاروں کا محکمہ کلچر کا انتظامی دائر ہ کار فنکاروں ، گلوگاروں اور ہنر مندوں کے حوالے کیا جائے تاکہ وہ فنون لطیفہ کے حوالے سے قانون سازی میںاپنا کردار ادا کر سکیں ، کسی بھی سرکاری و غیر سرکاری محکمے کےلئے پالیسی ہونا لا زم وملزوم قرار دیا جا تا ہے ، پالیسی سے محکموں کی کا رگردگی اور ان کے اختیار کا تعین کیا جا سکتا ہے، خیبر پختونخوا میں کلچر پالیسی نہ ہو نے سے فلم میں سنسر شپ ، کا پی رائٹ اور دیگر مسائل کے ساتھ ڈراموں میں پھیلا ئی جا نے والی فحاشی پر قابو پایا جاسکتا ہے ، خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت نے چار سالوں کے دوران 144 بل منظور کروائے ہیں جبکہ کلچر پالیسی اور اور سنسر شپ بورڈ کے قیام کے حوالے سے کو ئی بل نہیں پیش کیا جا سکا ہے ،اس حوالے سے ڈائریکٹر کلچر خیبر پختونخوا اجمل خان نے بتایا کہ کلچر پالیسی کے حوالے یونیسکو کی جانب سے پالیسی کےلئے سمت کا تعین کیا گیا ہے کہ لوکل سطح پر فنون لطیفہ سے وابسطہ افراد کے ساتھ میٹنگ اور تقاریب کا انعقاد کیا جا رہا ہے ان کا کہنا تھا کہ عنقریب صوبے کے عوام کو نئی کلچر پالیسی دی جائے گی۔

culture 2

Nadra Mega Center Peshawar

شہزادہ فہد

وفاقی حکومت اور وزارت داخلہ کی جانب سے پشاور میں بنائے جانے والا پہلا نادرہ میگا سنٹر میں کرائے کی عمارت قائم کیا گیا ، پہلے سے تعمیر شدہ کرائے کی عمارت پرتعزین و آرائش کی مد میں 15 کروڑ روپے پھونک دئیے گئے ، سنٹر کے قیام کے بعد قریبی 4 ناردہ سنٹر بند کئے جا ئینگے ، شہری نئے شناختی کارڈ کے حصول کےلئے سنٹر میں نارمل سمارٹ قومی شناختی کارڈ کی بجائے ایگزیکٹو کارڈ کی فیس ادا کر ینگے ، سنٹر میں ارجنٹ پارسپورٹ کی فیس بھی نارمل سے زیادہ وصول کی جائیگی ، نادرہ غریب شہریوں کو سہولیات ختم کر کے امرءکو سہولیات دینے پر عمل پیرا ہو گیا ، خیبر پختونخوا میں پہلے نادرہ میگا سنٹر کے قیام بغیر منصوبہ بندی کئے پانی کی طرح پیسہ بہایا جا رہا ہے ، تہکال میں نادرہ میگا سنٹر کےلئے پہلے سے تعمیر شدہ کرائے کی بلڈنگ کی تعزین و آرائش پر 15 کروڑ روپے خرچ کر دئیے گئے ہیں ، جبکہ سنٹر کے لئے منتخب عمارت کا لاکھوں رپوں ماہانہ کرایہ ادا کیا جائے گا ، میگا سنٹر کے قیام کے بعد کوہاٹ روڈ ، ڈینز پلازہ ، ابدارہ روڈ اور کینٹ فاٹا میں قائم نادرہ دفاتر ختم کئے جا ئینگے ، چار سنٹرز کی بندش پر پشاور کے شہریوں کو شدید مشکلات درپیش ہو نگے ، نواحی و مضافاتی علاقوں کے شہری ،کوہا ٹ روڈ ، پشاور کینٹ ،اور فاٹا کے رہائشی شناختی کارڈ کے حصول کےلئے یونیورسٹی روڈ کے چکر کاٹیں گے، واضح رہے کہ نادرہ دفاترمیں ہرامیر و غریب سے سمارٹ کارڈ کی نارمل فیس 400 کی بجائے8 سو اور 16 سو روپے وصول کئے جا رہے ہیں، کارڈ گم ہو نے کی صورت میں بھی 16 سو روپے وصول کئے جاتے ہیں، نادرہ وفاقی محکمہ ہو نے کی وجہ سے اہلکاروں کی من مانیاں عروج پر ہیں جبکہ فیس اور سہولیات کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ،

 

Police Stations in FATA

شہزادہ فہد

فاٹا اصلاحات کو عملی جامع پہنانے کےلئے عملی سطح پر تیاریاں روز و شور سے کی جا رہی ہیں ، تمام ایجنسیوں کے پولٹیکل ایجنٹس کو اپنی اپنی ضروریات کے مطابق تھانوں کی تعداد اور علاقوں کا تعین کر نے کی ہدایات جا ری کر دی گئیں ہیں ، پولیٹکل ایجنٹس نے اپنی ایجنسیوں کے عمائدین کو اعتماد میں لے لیا ہے ، قبائلی علاقوں میں تھانوں کے قیام کا آغاز فرنٹیر ریجن( ایف آرز) سے کیا جائے گا، خیبر پختونخوا کی 7 ایجنسیوں میں تھانے قائم ہو نگے جس کے لئے ابتدائی طور پرپولیس کی نفری خیبر پختونخوا پولیس کی جانب سے مہیا کی جائے گی ، ایجنسیوں میں تعینات خاصہ دار فورس اور لیویز کو پولیس ٹرینگ دینے کی تجویز بھی زیر غور ہے جبکہ قابلیت اور معیار پر پورا نہ ہونے والے خاصہ داروں اور لیویز اہلکاروں کو ممکنہ طور پر ہینڈ شیک دیا جائے گا ، اس سے قبل پشاورکے بندوبستی اورفاٹا کی باﺅنڈری پر 31 راکٹ اور بلٹ پروف چوکیاں قائم کی جا چکی ہیں، متنی، اصحاب بابا ، ریگی للمہ، جالہ بیلہ ، شاغلی، مچنی گیٹ اور پشاور سے ملحقہ دیگر علاقوں میں چوکیوں میں ابتدائی طور چیک پوسٹیں بنائی جا رہی ہیں،ان میں سے ہر چوکی پر 32 اہلکاوں پر مشتمل پولیس اہلکار تعینات کئے جائیں گے کیا جا ئے گا ،پولیس حکام کے مطابق مذکورہ چوکیوں کے قیام سے شرپسندوں کے انٹری پوائنٹ سمیت ان کے چور راستے بند ہو جا ئینگے اور پشاور کی سیکورٹی میں مزید بہتری آئے گی ،پولیس چیکنگ پوائنٹ سے اسلحہ و بارود کی سپلائی کی روک تھام میںبھی مدد ملے گی اورآنے والے وقتوں میں پولیس کےلئے کا رآمد ثابت ہو نگی ،فاٹا کی تمام ایجنسیوں بشمول ایف آر ز تک تھانہ کلچر منتقل کرنے کےلئے سروے مکمل کیا جا چکا ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے تحصیل جمرود کو ایک آفیشل لیٹر بھی موصول ہوا تھا جس میں خیبرایجنسی کے انتظامیہ سے پولیس سٹیشنز بنانے کیلئے ایجنسی میں جگہ منتخب اور اعداد شمار دینے کا کہا گیا ہے

پولٹیکل انتظامیہ جنوبی وزیرستان نے ایجنسی میں مجوزہ 76پولیس اسٹیشن قائم کرنے کے لیے سیکرٹری لائاینڈ آرڈرکو خط

خیبر پختونخوامیں فاٹا انضمام کے اثرات ظاہرہوتے ہی پولٹیکل انتظامیہ جنوبی وزیرستان نے سیکرٹری لا ءکو ایجنسی میں پولیس اسٹیشن قائم کرنے کی تجویز پیش کرتے ہوئے خط ارسال کردیا جس کے مطابق ایجنسی میں 76پولیس اسٹیشنز قائم کئے جاسکتے ہیں،خط کے مطابق تحصیل سرویکئی میں 9پولیس اسٹیشن قائم کرنے کی گنجائش موجود ہے جبکہ لدھا میں 22پولیس اسٹیشن قائم کئے جاسکتے ہیں اسی طر ح خط میں وانا تحصیل میں 45پولیس اسٹیشنز قائم کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہیں، پولٹیکل انتظامیہ کے خط کے مطابق ان پولیس اسٹیشنز میں نو ہزار 160پولیس عملہ تعینات کیا جاسکتا ہے۔

 

Thousands Suspended Officials Were Restored in Kp Police (سپاہی سے کم عہدہ نہیں ہے اور متنی کے بعد تھانہ نہیں ہے)

 سابق آئی جی پی کے دور میں معطل ہونے والے 5ہزار سے زائد پولیس اہلکار بحال
 سابق آئی جی پی کے دور میں کرپشن ،اختیارات کے ناجائزاستعمال کی پاداش میں معطل ہونے والے 6 ہزارسے زائد اہلکاروں کیخلاف کارروائی کی گئی تھی،صرف749کو برطرف کیا گیا
کرپشن اور بدعنوانیوں پر معطل افسر اوراہلکار مختلف فورمز سے رجوع اور کیس جیت کر دوبارہ بحال ہوگئے ہیں، متعدد اہلکاروں کو ڈی موٹ اور انکریمنٹ کاٹے گئے
تین سال کے دوران 18ایس پیز اور ڈی ایس پیز کے خلاف کارروائی کی گئی جن میں 10کو ملازمت سے برطرف کیا گیا اور 8کو دیگر سزائیں دی گئی،7 انسپکٹرز کو برطرف کیا گیا
 
پولیس میں سزا کا نظام کمزور ہونے کے بعد پی ایس پی افسروں کےخلاف بھی پولیس حکام کو شکایات موصول ہوئیں تاہم کسی
کےخلاف کارروائی نہیں ہو سکی
شہزادہ فہد
خیبر پختونخوا پولیس میں سابق آئی جی پی ناصر خان درانی کے دور میں کرپشن ، بدعنوانیوں،اختیارات کے ناجائزاستعمال ,جرائم پیشہ افراد کے ساتھ تعلقات اوردیگرجرائم کی پاداش میں معطل ہونے والے 6 ہزارسے زائد پولیس آفسروں اور اہلکاروں میں سے 5323اہلکاروں اور افسروں کو ملازمت پر بحال کردیا گیا جبکہ صرف 749پولیس آفسروں اور اہلکاروں کو ملازمت سے برطرف کیا گیا ،سابق آئی جی ناصر خان دورانی کی جانب سے پولیس ایکسسز سروس کے قیام کے بعد پولیس اہلکاروں اور افسروں کےخلاف شکایت میں تیزی آئی تھی تاہم سابق آئی جی پی ناصر درانی کے سبکدوش ہونے کے بعد متعلقہ ڈی پی او اور ڈی ایس پی کی نگرانی اور پولیس دباو کی وجہ سے پولیس کیخلاف عوامی شکایت درج کرانے میں کمی واقع ہو ئی ہے،سنٹرل پولیس آفس کی جانب سے دستیاب دستاویز کے مطابق تین سالوں کے دوران 5056 افراد نے پولیس اہلکاروں اور افسروں کے خلاف شکایات درج کروائیں ، 2014 ءسے 2017ءتک پولیس کے خلاف سب سے زیادہ 1303 شکایت پشاور کے شہریوں نے درج کرائی تھیں جبکہ سب سے کم122 شکایات ڈی آئی خان سے موصول ہوئیں،ذرائع کے مطابق کرپشن اور بدعنوانیوں پر معطل افسر اوراہلکار مختلف فورمز سے رجوع اور کیس جیت کر دوبارہ بحال ہوگئے ہیں،دوسری جانب سے متعد د مقدمات میں ملوث کسی ایک پی ایس پی آفسر کے خلاف بھی کارروائی نہیں کی گئی اور شکایات پر صرف چند ایک کو ایک عہدے سے ہٹا کر دوسری جگہ تعینات کیا گیا ہے، ذرائع کے مطابق گزشتہ 3سالوں کے دوران مبینہ بد عنوانیوں کرپشن اور دیگر جرائم کی بنا ءپر 6072پولیس آفسروں اور اہلکاروں کے خلاف کاروائی کی گئی اور انکو معطل کیا گیا جن میں سے صرف749افسروں اور اہلکاروں کو ملازمت سے برطرف کیا گیا اور 5323افسرو ں اور اہلکاروں کو دیگر سزائیں دی گئی ہیں، ان میں متعدد اہلکاروں کو ڈی موٹ اور انکریمنٹ کاٹے گئے ہیں ،گزشتہ تین سال کے دوران مجموعی طور پر 18ایس پیز اور ڈی ایس پیز کے خلاف کارروائی کی گئی جن میں 10کو ملازمت سے برطرف کیا گیا اور 8کو دیگر سزائیں دی گئی،متعدد کیسوں میں ملوث64انسپکٹروں میں 7کو ملازمت سے برطرف کیا گیا اور 57کو دیگر سزائیں دی گئی 414سب انسپکٹروں میں 44کو ملازمت سے برطرف کیا گیا اور 370کو دیگر سزائیں دی گئی ہیں،470اسسٹنٹ سب انسپکٹروں میں سے 36کو ملازمت سے برطرف کیا گیا اور 434کو دیگر سزائیں دی گئیں 607ہیڈ کانسٹیبلوں میں سے 54کو ملازمت سے برطرف کیا گیا اور 553کو دیگر سزائیں دی گئیں ،4499کانسٹیبلوں کےخلاف کارروائی کی گئی جن میں 598کو ملازمت سے برطرف کیا گیا اور 3901کو دیگر سزائیں دی گئیں ان تین سالوں کے دوران بعض پی ایس پی افسروں کےخلاف بھی پولیس حکام کو شکایات موصول ہوئی ہیں لیکن ان میں کسی کےخلاف کارروائی نہیں کی گئی،پولیس میں سزا کے کمزور نظام کی وجہ سے پولیس فورس میں ایک جملہ زبان زد عام ہے کہ
سپاہی سے کم عہدہ نہیں ہے اور متنی کے بعد تھانہ نہیں ہے۔

Third Death anniversary of Army Public School Tragedy (Story of a Teacher)

تحریر :شہزادہ فہد

دسمبر آگیا پھر سے چلو مل کر چلیں مکتب

ننھی پری خولہ کے والد کا حوصلہ بلند
بیٹی کھونے اور پسلیاں ٹوٹنے کے باوجود استاد اے پی ایس سے منسلک رہے

بابا یہ لوگ بچوں کو کیوں ماررہے ہیں، شہید ننھی پری خولہ کا آخری سوال

ستمبر2014ء میں آرمی پبلک سکول میں تعینات ہونے والے پروفیسر الطاف کی اکلوتی بیٹی سانحہ کے دن اپنے بھائی اور بابا کے ساتھ سکول آئی تھی

ننھی پری خولہ اپنے بابا کے ساتھ کلاس میں پہنچی ہی تھی کہ دہشتگردوں نے حملہ کردیا،تین گولیاں سینے میں لگیں اوربابا کے سینے سے لپٹے ہوئے شہید ہوگئی

سانحہ آرمی پبلک سکول کی تیسری بر سی ، پروفیسر الطاف جیسے بلند حوصلہ افراد تعلیم کے دشمن اور بچوں کے قاتلوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گئے

بابا یہ” گولیاں کیوں “چل رہی ہیں، یہ ”کو ن لوگ ہیں“ یہ ”  بچوں کو کیوں مار رہے ہیں“ ،ں سوالوں کے جواب کی منتظر بچی باپ کی توجہ اس کے گولیوں سے چھلنی سینے کی جانب دلاتے ہوئے کہتی ہے کہ بابا آپ کا ”خون“ نکل رہا ہے، اس کے ساتھ ہی اس ننھی پھول جیسی بچی کی آواز بند ہو جاتی ہے، یہ پروفسیر الطاف کی کانوں میں گونجنے والی وہ آواز ہے جو سانحہ آرمی پبلک سکول میں ہمیشہ کیلئے خاموش کردی گئی، سانحہ اے پی ایس کے دوران یہ ننھی بچی سکول میں اپنے پہلے ہی دن سفاک قاتلوں کی درندگی کانشانہ بنی اور اپنے بابا کے سینے سے لپٹی ننھی پری خولہ شہادت کے رتبہ پرفائز ہوگئی، پروفیسر الطاف کا تعلق بالاکو ٹ کی ایک مڈل کلاس فیملی سے ہے ، ایم اے انگلش اور ایم اے اسلامیات کے بعد بالا کوٹ کے ایک نجی کالج میں درس و تدریس کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ، ستمبر2014ء میں انہیں پشاور آرمی پبلک سکول سے فون کال آتی ہے جس میں انہیں سکول میں پڑھانے کی آفر دی جا تی ہے ، پروفیسر الطاف اپنے عزیروں واقارب سے مشورے کے بعد پشاور منتقل ہو جا تے ہیں،16 دسمبر 2014ءکا سورج طلوع ہوتا ہے ، معمول کے مطابق پروفسیر الطاف سکول جانے کی تیاری میں مصروف ہو جا تے ہیں ان کا بیٹا یونیفارم پہن کر سکول جانے کےلئے تیار کھڑا ہے اس دوران اکلوتی بیٹی خولہ اپنے بڑے بھائی کے ہمراہ سکول جانے کی ضد کر تی ہے،بیٹی کے اسرار پر والد حامی بھر لیتے ہیں ، راستے میں بیٹی اپنے والد کو کہتی ہے کہ آج میں اپنے بھائی کے ساتھ سکول جاتے ہوئے بہت خوشی محسوس کررہی ہوں، پروفسیر الطاف جب سکول پہنچے تو اپنی بیٹی کو پرنسپل کے کمرے میں لے گئے جہاں پرنسپل سے مختصر تعارف کے بعد بچی کو سکول میں داخلے کی اجازت مل جاتی ہے، پرنسپل کے آفس سے نکل کر وہ کلاسزلینے چلے گئے اور بچی سے کہا کہ بیٹا کہ پرنسپل سے بات ہوگئی ہے آپ کل سے باقاعدہ یونیفارم میں آکر اپنی کلاس جوائن کرلوگی یہی باتیں کرتا وہ کلاس روم پہنچا اور کچھ ہی لمحوں کے بعد ایک زوردار دھماکہ کی آواز آتی ہے جب وہ بالکنی سے جھانکا تو مسلح افراد اوپر آرہے ہوتے ہیں جس پرپروفیسر نے کمرہ کادروازہ بند کرتے ہوئے بچوں کوزمین پرلیٹ جانے کیلئے کہا جبکہ اپنی بچی خولہ کوبھی اپنی آغوش میں لے لیا،دہشت گرد کمرے کا دروازہ توڑ کر اند ر داخل ہو تے ہی پروفیسر الطاف پرگولیوں کی بو چھاڑ کر دیتے ہیں جن میں تین گولیاں ان کے جسم کو چیرتی ہو ئی ان کی بچی کے جسم میں پیوست ہو جا تی ہیں ، پروفیسر الطاف کو ہو ش آتا ان کے زبان پر بے ساختہ خولہ کا نام آتا ہے وہ بد حواس ہو کر اپنی بچی کےلئے اٹھنے کی کوشش کرتے ہیں ان کا جسم زخموں سے چور چور ہوتا ہے ، ان کی پسلیاں کٹ چکی ہوتی ہیں، گھروالے انھیں بناتے ہیں کہ خولہ شہید ہو چکی ہے ، ہسپتال میں صحت یاب ہو کر انھیں آبائی گھر لایا جا تا ہے ، عزیر و اقارب انھیں بالا کورٹ میں کو ئی چھو ٹا مو ٹے کاروبار کا مشورہ دیتے ہیں، پروفسیر الطاف دوبارہ پشاور جانے پر بضد ہوتے ہیں صحت یابی کے بعد وہ اپنی کٹی پسلیوں کے ساتھ ایک بار پھر اپنے بلند اداروں اور ایک نئے عزم کے ساتھ آرمی پبلک سکول جانے کا ادادہ کر تے ہیں اور اپنے بچوں کو ساتھ لے کر واپس پشاور آ جا تے ہیں ، سانحہ آرمی پبلک سکول کی تیسری بر سی ہے، شہید بچوں کا خون رائیگاں نہیں گیا ، آج پروفیسر الطاف جیسے بلند حوصلے افراد دہشت گردوں کےلئے عبرت کا نشاں ہیں ، بیٹی کی شہادت اور جسمانی طور پر معذوری ان کے پہا ڑ جیسے عزم کے سامنے چیونٹی کی طر ح ثابت ہو ئی ہے ،یہ ہوتی ہے زندہ قوموں کی نشانی ہمیں اپنے ہیروز کو کبھی نہیں بھولنا چایہے، میں ایک شاعر تو نہیں ہوں لیکن اس واقعہ کو لکھتے ہوئے  میرے ذہین میں غزل کا ایک مصرہ آیا ہے کاش میں اسے پورا کر سکتا ۔

   IMG-20161217-WA0005دسمبر آگیا پھر سے چلو مل کر چلیں مکتب

Target Killing In Khyber Pukhtoon Khwa 9 Month Data 2017

خیبر پختونخوا میں رواں سال کے 9ماہ مین 31 افراد کی ٹارگٹ کلنگ

عسکریت پسندی اور فرقہ واریت کی بھینٹ چھڑنے والوں میں سب سے زیادہ پشاور کے شہری،دوسرے نمبر پر ڈی آئی میں لوگوں کو نشانہ بنایا گیا

5 افراد کو پشاور میں ٹارگٹ کیا گیا جبکہ ڈیر ہ اسماعیل خان میں 4 افراد مذہبی منافرت اور عسکریت پسندی کی بھینٹ چھڑ ے، پہلے تین ماہ صوبہ ٹارگٹ کلنگ کے حوالے بھاری رہے

ذاتی دشمنیوں اور لین دین،معمولی تکرار پر 32 افراد کو قتل کیا گیا، ٹارگٹ کلنگ میں ہو نے والی سب سے زیادہ اموات 2014ءمیں 90 ہوئیں،دستاویزات میں انکشاف

شہزادہ فہد

خییبر پختونخوامیں رواں سال کے نوماہ کے دوران 31 افراد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا،عسکریت پسندی اور فرقہ واریت کی بھینٹ چھڑنے والوں میں سب سے زیادہ تعداد پشاور کے شہریوں کی ہے جبکہ دوسری نمبر پر ڈی آئی میں لوگوں کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا،خیبر پختونخوا میں رواں سال کے نو ماہ کے دوران مختلف اضلا ع میں 31 افراد کو ٹارگٹ کرکے موت کے گھاٹ اتارا گیا ، دستاویز کے مطابق صوبے بھر میں سب سے زیادہ 5 افراد کو پشاور میں ٹارگٹ کیا گیا جبکہ ڈیر ہ اسماعیل خان میں 4 افراد مذہبی منافرت اور عسکریت پسندی کی بھینٹ چھڑ ے ، دستاویز کے مطابق 2017ء کے جنوری،فروری،مارچ میں ٹارگٹ کلنگ کے14 واقعات رونما ہوئے ، رواں سال کے پہلے تین ماہ صوبہ بھر میں ٹارگٹ کلنگ کے لحاظ سے بھاری رہے ، ٹارگٹ کلنگ کے علاوہ صوبے بھر میں ذاتی دشمنیوں اور لین دین،معمولی تکرار پر 32 افراد کو قتل کیا گیا،صوبے میں ٹارگٹ کلنگ میں ہو نے والی سب سے زیادہ اموات 2014ءمیں ہوئیں 90 افراد کوقتل کیا گیا

target-killings