Tag Archives: english

Leather industry and Animal sacrificial skins چمڑے کی صنعت اور قربانی کی کھالیں

شہزادہ فہد

ملکی معیشت میں ریڑی کی ہڈی کا کردار ادا رکرنے والی چمڑے کی صنعت عیدا لاضحی پر زبوں حالی کا شکار ہوگئی ، کھالوں کے ریٹ کم ہونے سے تاجر پریشان اربوں رپوں کا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے ، حکومت کی جانب سے ٹیکسوں کی بھرمار کی وجہ سے غیر ملکی کمپنیوں نے بھی منہ موڑ لیا ، صوبائی دارلحکومت پشاور میں عید الاضحی کے بعد مختلف مقاما ت پر کھالوں کی منڈیاں سج جاتی ہیں تاہم اس بار گزشتہ سال کی نسبت کھالوں کے نرخوں میں کمی واقع ہونے سے چمڑے کے کاروبار سے وابستہ تاجر عیدالاضحی پر منافع کی بجائے نقصان اٹھانے لگے ہیں، مقامی تاجروں کے مطابق خریداری اور فروخت پر اضافی ٹیکس کی وجہ سے کھالوں کے نرخوںمیں کمی کی گئی ہے اسی طرح ملکی سطح کے بڑے تاجربھی بڑی تعداد میں کھالوں کی خریداری نہیں کررہے ، کیونکہ بیرون ملک کھالوں کی بر آمد دات پر اضافی ٹیکسوں کی ادائیگی پر ڈیل نہیں کی جارہی ہے، پشاور میں چمڑافروشی کے کاروبار کےلئے عید الاضحی پر قصاب خانہ ، رنگ روڈ ، لنڈی سٹرک اور سینما روڈ پر منڈیاں لگائی جاتی ہیں، جہاں صوبے بھر سے قربانی کے جانوروں کی کھالیں فروخت کے بعد اکٹھی کی جاتی ہیں جو کہ بعدازاں پنجاب اور دیگر صوبوں میں پڑے پیمانے پر فروخت کی جاتی ہیں ، رواں سال نرخوں میں کمی ہونے سے ملی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ، گزشتہ سال گائے کی کھال 15 سو روپے سے 25سو روپے تک فروخت ہوئی ، اس سے دوسال قبل قیمتیں 2 ہزار سے4 ہزار تک تھی ، اسی طرح رواں سال بکرے اور دنبے کی کھال20 روپے میں فروخت ہورہی ہے جو کہ گزشتہ سال 150 سے 250 روپے تک فروخت ہوتی تھیں، قیمتوں میں کمی ہونے کی دیگر وجوہات میں ملکی سطح پر چمڑے کی فیکٹریوں اور غیر ملکی سطح پر چمڑے کی فیکٹریوں کی خریداری میں عدم دلچسپی بنائی جاتی ہے،چمڑے کے تاجروں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ چمڑے کے کاروبار سے منسلک افراد کی مشکلات کا ازالہ کیا جائے ۔

پاکستان کا شمار دنیا بھر میں سب سے زیادہ قربانی کے جانوروں کی کھالیں برآمد کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے

پاکستان میں رواں سال عیدالاضحی پر لاکھوں قربانی کے جانور ذبح کئے گئے ، پاکستان کا شمار دنیا بھر میں سب سے زیادہ قربانی کے جانوروں کی کھالیں برآمد کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے ، یہ قربانی کی کھالیں کوریا، چاپان،جرمنی، امریکہ ،یورپ، چین اور دیگر ممالک بر آمد کی جاتی ہیں،، خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان سے قربانی کی کھالیں پنجاب کے چمڑے کی فیکٹریوں کو بھجوائی جاتی ہیں، جہاں کھالوں کی فینشنگ کرکے چمڑے کی مصنوعات بنائی جاتی ہیں

 

قربانی کی کھال کو محفوظ بنایا جاررہا ہے

دنیا بھر میں چمڑے سے بنی ہوئی چیزیں پسند کی جاتی ہیں ،جنھیں مہنگے داموں فروخت کرکے کثیر زرمبادلہ کمایا جاتاہے

چمڑے سے بننے والے اشیاءمیں لیدر جیکٹس، بیگز، سیٹ کورز، جوتے ، کاسلیٹکس اور دیگر اشیاءشامل ہیں اسی طرح چمڑے سے ربڑ بھی تیار کیا جاتا ہے ، جس سے ٹائر م ٹیوب، اور دیگر اشیاءبنائی جاتی ہیں ، حکومت اگر پاکستان میں چمڑے کے کاروبار کرنے والوں کو خصوصی مراعات فراہم کرے تو پاکستانی معیشت کو بہتر کیا جاسکتا ہے ۔

کھالوں کے کاروبار سے وابسطہ تاجر نہیں ہی دینی مدارس بھی متاثر ہونگے

پشاور سمیت صوبہ بھر میں قربانی کے جانوروں کے کھالوں کی قیمتوں میں کمی سے جہاں کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا وہاں کھال کی قیمتیں گرنے کے باعث مختلف سماجی ادارے ، مدارس کو دیئے جانے والے کھالوں سے منتظمین کو مالی مشکلات کاسامنا کرنا پڑا ، پشاور میں قائم ایک دینی مدرسے کے طالب علم عصمت اللہ فقیرکا کہنا ہے کہ کھالوں کی آمد ن سے تین ماہ سے پانچ ماہ تک مدرسے کا لنگر اور دیگر امور میں مدد ملتی تھی تاہم اس مرتبہ انھیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا،ا نھوںنے صوبائی حکومت سے دینی مدارس کو خصوصی پیکج دینے کا مطالبہ کیا ہے ، کھالوں کی قیمتیں گرنے کے باعث ان کے اکٹھے کرنے کی سرگرمیاں بھی کم رہیں

Mahabat Khan Mosque Condition unspecified flow

شہزادہ فہد
مغلیہ دور حکومت میں بنائی جانی والی تاریخی اہمیت کی حامل مسجد مہابت خان کی حالت ناگفتہ بہہ ہو گئی ، حکومتی عدم توجہ کے باوجود مغل طرز تعمیر کا شاہکار صدیوں پرانی مسجد اپنی تاریخی حیثیت برقرار رکھے ہو ئے ہے، مسجد کے اطراف میں بنائی جانےوالی غیر قانونی دکانیں پلازے مسجد کی تا ریخی حیثیت پر اثر انداز ہو نے لگے ہیں، مختلف قوموں کی پشاور پر حکمرانی کی گواہ مسجد جو زلزلوں اور موسم کی شدت کو تو سہہ گئی تاہم انسانوں نے مسجد کے قریب غیر قانونی تعمیرات کر کے مسجد کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا، مسجد کے قریب پلازوں اور دکانوں کی آباد کاری سے مسجد کی بنیادیں کھوکھلی ہو گئی ہیں جسکی وجہ سے مسجد کی دیواریں کسی بھی وقت منہدم ہو سکتی ہیں، صحن کا فرش اور کئی حصے بیٹھ چکے ہیں ، مسجد کو نمی اور قدرتی آفات سے محفوظ بنانے کےلئے9فٹ اونچائی پر بنایا گیا تھا اور اطراف میں بر آمدے بنائے گئے تھے جس پر دکاندار قابض ہو گئے ہیں اور دکانوں کو وسیع بنانے کےلئے کھدائی کی گئی ہے جس سے مسجد کی دیواریں اور فرش بیٹھ گیا ہے، صدیوں سے آباد پشاور شہر کی تاریخ صرف کتابوں میں ہی نہیں ملتی بلکہ اس کے ثبوت بھی موجود ہیں، یوں تو پشاور بھر میںدرجنوں مقامات ہیں جس سے اس خطے میں آباد رہنے والی قوموں بارے آگاہی ملتی ہے ، ان میں سے ایک مسجد مہابت خان بھی ہے جو کہ مغل طرز تعمیر کا ایک شاہکار ہے ، پشاو رمیں واقع تاریخی اہمیت کی حامل قدیم مسجد مہابت خان حکومتی عدم توجہی کا شکار رہی ہے ، کئی حکومتیں گزر گئی تاریخی حیثیت کے حامل مسجد کی حفاظت کے لئے کسی بھی دور حکومت میں جامع حکمت عملی نہ بنائی جاسکی ،مسجد کے اطراف میں قائم دکانیں اورپلازے انٹکویٹی ایکٹ کی خلاف ورزی ہونے کے ساتھ تاریخی مسجد کی بقاءکےلئے خطرہ ثابت ہو نے لگے ہیں،اس حوالے سے محکمہ آثار قدیمہ کے فوکل پرسن نواز الدین صدیقی کا کہنا تھا کہ مسجد کی اصل حالت برقرار رکھنے کےلئے اقدامات شروع کر دئیے گئے ہیں، پہلے مرحلے میں ناز سینما روڈ پر پانچ پانچ دکانوں کو خالی کرایا جائےگا،حکومت کی جانب سے مسجد کی مرمت و بحالی کےلئے 8 کروڑ 77 لاکھ روپے کا فنڈجاری کیا گیا ہے جس میں رواں سال 2کروڑ روپے جون کے مہینے تک خرچ کئے جائینگے، دوسری جانب مسجد کے اطراف میں قائم تجاوزات اور مسجد کی دکانوں میں موجود کرائے داروں کے باعث کام سست روی کا شکار ہے، دکانوں کو خالی کرانے کےلئے تمام تاجروں کو نوٹسز جا ری کر دئیے گئے تاہم تاجروں کی جانب سے مرحلہ دار دکانیں خالی کر انے کا مطالبہ کیا گیا ہے ، مسجد کی عمارت کو محفوظ بناکر اس کی تاریخی اہمیت کو بحال رکھا جاسکتا ہے جو کہ وقت کی اہم ضرورت ہے ۔

مسجد مہابت خان کسی شخصیت کا نام نہیں تھا بلکہ یہ کابل ، پشاور کے گورنر کا لقب تھا۔
پشاور میں واقع تاریخی مسجد مہابت خان کا نام مغلیہ حکمران یا کسی اہم شخصیت کے نام سے منسوب نہیں گیا ، مہابت خان کابل اور پشاو رکے گورنرلقب تھا جوکہ چار صدی قبل باپ بیٹے کو دیا گیا تھا ،مغل بادشاہ شاہ جہان اور اورنگزیب کے دور حکومت میں زمانہ بیگ کو کابل اور پشاو رکا گورنر نامزد کیا گیا ، زمانہ بیگ کی وفات کے بعد ان کے بیٹے مرزا لوراسپ کو 1658 ءمیں گورنر نامزد کیا گیا جنھوں نے مسجد مہابت خان کی تعمیر میں دلچسپی لی اور دو سال میں مسجد کی تعمیر مکمل کی ۔

مسجد کی تعمیر میں دال چاول انڈے پیس کر میٹریل میں مکس گئے تاکہ مضبوطی کافی عرصہ تک قائم رہے چونے اور کنجور سٹون بھی استعما ل کیا گیا۔
مسجد مہابت خان انجنیئرنگ کے لحاظ مغلیہ دور حکومت کی بہترین تعمیرات کا شاندار نمونہ ہے ، مسجد کو سیم سے محفوظ رکھنے کےلئے اونچائی پر بنا یا گیا ، مسجد کی عمارت کے نیچے مٹی کی بھرائی کی گئی اور مسجد کے باہر کھلے برآمدے بنائے گئے ، تاکہ مسجد قدرتی حادثات سے محفوظ رہے، مسجد کی عمارت زمین سے 9 فٹ اونچائی پر بنائی گئی ، مسجد کی تعمیر میں چونے اور کنجور سٹون کا استعمال کیا گیا ، مختلف دیواروںمیں دال چاول انڈے پیس کر تعمیراتی میٹریل میں مکس کئے گئے ، مسجد کی دیواروں پر اسلامی پینٹنگ (سٹکو) اور کھڑکیوں میں رنگین شیشے لگائے گئے ۔

 

Interest Rate Rise In Khyber Pukhtoonkhwa (خیبر پختونخوامیں سود خوری)

خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے نجی قرضوں پر سود کی وصولی پر روک تھام کے متعلق قانون ہونے کے باوجود صوبے میں سود خوری عروج پر پہنچ گئی ، سودخوروں نے قانونی کاروائی سے بچنے کےلئے نئے حربے ایجاد کر لئے،

شہزادہ فہد ۔
خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے سود کے خلاف قانون کارآمدثابت نہ ہوسکا ، سود خوروں نے قانون کومات دینے او ر پولیس کی گرفت سے بچنے کےلئے نیا حربہ اپنا لیا ، قرضہ دیتے مجموعی رقم میں سود شامل کرکے کاغذئی کاروائی کی جانے لگی ہے، قرضے کے حصول کےلئے مجبور شخص ا سٹاپ پر دستخط کرکے سودخوروں کو محفوظ بنا دیتے ہیں ، پولیس حکام سر پکڑ کر بیٹھ گئے ،2016ءمیں خیبر پختونخوا اسمبلی سے قانون پاس ہونے کے بعد تاحال پشاور کے مختلف تھانوں میں 92 افراد کے خلاف سود ایکٹ کے تحت مقدمات درج کئے گئے جن میں 60 افراد گرفتار ہو چکے ہیں ،تھانہ بڈھ بیر میں سب سے زیادہ سودخوروں کے خلاف مقدمات درج کئے گئے جبکہ گلبہار دوسرے نمبر پر رہا ،خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے نجی قرضوں پر سود کی وصولی پر روک تھام کے متعلق قانون پاس کیا گیا جس کے تحت اگرکوئی اس طرح کرتاہے تواس کو تین سے دس سال تک کی سزا اور دس لاکھ روپے تک جرمانہ کی سزا دی جاسکتی ہے اسی طرح جن لوگوں نے سود پرقرضہ دینے میں معاونت کی وہ بھی اسی زمرے میں آئیں گے،سود پر قرضے کی عدم وصولی پراگرکسی کیساتھ مارپیٹ کی جاتی ہے تو اس کو پانچ سال تک قیدکی سزادی جائے گی۔اسی طرح اس حوالے سے کوئی شکایت کرتاہے تو تین دنوں کے اندر ایک کمیشن بناکر پولیس کو رپورٹ کی جائے گی اوراس حوالے سے کیسزکی شنوائی جوڈیشل مجسٹریٹ سے کم کی عدالت میں نہیں ہوگی،مذکورہ قانون کی رو سے اگرپولیس کسی کو گرفتارکرتی ہے تو کوئی بھی عدالت سودمیں ملوث افرادکوضمانت پررہا نہیں کرسکے گی ،اسی طرح عدالت فریقین کے مابین کسی بھی راضی نامے کو قبول نہیں کریگی،بل کے تحت اگرکسی نے مجموعی رقم کی سودکی ادائیگی اس رقم کی حد تک کی ہے تو وہ مزید ادائیگی نہیں کریگا،عدالت اس طرح کے کیسوں پر تیس دنوں میں فیصلہ سنائے گی ، دوسری جانب سودخوروں نے قانون کی گرفت سے بچنے کےلئے حکمت عملی ترتیب دے دی ہے ، قرضے کی رقم میں سود شامل کرکے مجموعی رقم کا معاہدہ کرنے پر قانون کے شکنجے سے محفوظ ہونے لگے ، 2016 ءخیبر پختونخوا اسمبلی میں قانون پاس ہونے کے بعد تاحال پشاور پولیس نے 92 افراد کو نئے قانون کے تحت گرفتار کیا ہے جن میں 72 افراد کے خلاف مقدمات درج کئے جاچکے ہیں ، صوبائی دارلحکومت پشاو رکے 30 تھانوں میں سب سے زیادہ 22 مقدمات بڈھ بیرمیں درج کئے گئے ، اسی طرح دوسرے نمبر پر گلبہار میں 10 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے مھترا میں 8 ،یونیورسٹی میں 6، گلبرگ،خرانہ اور پشتخرہ میں 4/4 مقدمات جبکہ شاہ قبول، بھانہ ماڑی، پھندو، اور داود زئی میں 3/3 مقدمات درج کئے گئے ہیں ، تھانہ خان رزاق ،فقیر آباد،پہاڑی پورہ،شرقی، حیات آباد،تاتارہ،ریگی ماڈل ٹاون، چمکنی میں کو ئی مقدمہ درج نہ کیا جاسکا ہے ۔

 

Woman Harassment In Khyber Pukhtoonkhwa

شہزادہ فہد

خیبر پختونخوا میں خواتین کو کام کے جگہوں پر ہراساں کرنے کے خلاف شکایات کے ازالے کے لئے محتسب موجود نہ ہو نے سے صوبے بھر میں خواتین عدم تحفظ کا شکار ہیں ، غیر سرکاری اعداد شمار کے مطابق خیبرپختونخوا میں 2015سے ابتک مختلف نجی اور سرکاری اداروں میں 500سے زائد خواتین کو جنسی ہراساں کرنے کے کیسز سامنے آئے ہیں جس میں سب سے زیادہ محکمہ تعلیم اور صحت سے کیسز رجسٹرد ہوئے صرف پشاور یونیورسٹی سے300سے زائد خواتین نے ہراسمنٹ کے کیسز رجسٹر کیے جا چکے ہیں جبکہ دوسری جانب خواتین کو تحفظ فراہم کرنے والی محتسب کی نشست گزشتہ سات سالوں سے خالی ہے، ایکٹ کے مطابق ہر ادارے میں ہراساں کئے جانے کے خلاف کمیٹی لازمی قرار دی گئی جس میں ایک خاتون کی نمائندگی بھی ضرروی ہے تاہم صوبے بھر میں سرکاری و نجی اداروں میں کمیٹی کا تصور ہی نہیں ہے، تھانہ کلچر کی وجہ سے ہراساں کی جانے والی خواتین پولیس کو رپورٹ درج کروانے کی بجائے خاموشی اختیار کرلیتی ہیں ، مارچ 2010 میں وفاقی حکومت نے کام کے جگہوں پر خواتین کو تحفظ فراہم کرنے اور خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف کارروائی کے بل کو منظور کیا تھا جس کے بعد سے وفاق، پنجاب اور سندھ میں محتسب کو مقرر کیا گیا ہے لیکن خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں محتسب موجود نہیں ہے، سزا کا عمل تیز نہ ہونے سے صوبے بھر میں خواتین کو ہراساں کئے جانے کے واقعات میں روز نہ روز اضافہ ہورہا ہے ،اور واقعہ میں ملوث ملزموں کوشہہ مل رہی ہے،وفاقی حکومت کی جانب سے سات سال قبل خواتین کو کام کی جگہ ہراساں کرنے کے لیے بنائی گئی ایکٹ (ہراسمنٹ آف وومن آن ورک پلیس ) میں کام کرنے کی جگہ خواتین کو ہراساں کے جرم ثابت ہونے پر3سال قید اور 5لاکھ روپے جرمانہ ہو سکتا ہے ،تعزیرات پاکستان سیکشن509تحت بھی خواتین اپنی ہراسمنٹ کے خلاف تھانے میں ایف آئی آر درج کرسکتی لیکن تھانہ کلچر کی وجہ سے اکثر خواتین اس اذیت ناک صورت حال کی بجائے خاموشی کو بہتر سمجھتی ہیں، ایکٹ کے مطابق کہ ہر نجی اور سرکاری اداروں تین رکنی کمیٹی ہوگی جس میں خواتین کی نمائیندگی ضروری ہوگی جو کہ کسی بھی شکایات کے ازالہ کرنے کے لیے کام کریگی جبکہ اس قانو ن کے تحت ادارے ضابطہ اخلاق بنانے کے بھی پابند ہیں لیکن ابھی تک کسی ادارے مین ضابطہ اخلاق اس حوالے سے نہیں بنائے گئے ۔ ان مرحلوں سے گزر کرایک لڑکی 509کے تحت ایف آئی آر درج کرسکتی ہے ۔ لیکن صوبائی حکومت اس حوالے کوئی بھی اقدام نہیں کیا ہے جو کہ اس صوبے کے خواتین کے ساتھ نا انصافی ہے ، خیبر پختونخوا میں خواتین کو ہراساں کئے جانے کے حوالے سے کام کر نی والی نجی فلاحی تنظیم کی چئیر پرسن خورشید بانو کا کہنا تھا کہ کہ خیبر پختون خوا میں سالانہ 2 سے 3سو خواتین کو دفاتر میں ہراساں کیا جاتا ہے گزشتہ دو سالوں میں صرف پشاور یونیورسٹی سے 300سے زائد کیسز موصول ہوئے لیکن محتسب نہ ہونے کے باعث وہ کیسز خراب ہوجاتے ہیں اور کسی کو سزا نہ ملنے کے باعث ایسے مردوں کو شہہ ملتی ہے، انھوں نے پشاور ہائی کورٹ میں یہ نشست سات سال سے خالی ہونے کے خلاف رٹ بھی کررکھی ہے،ان کا کہنا تھا کہ سیکرٹری ویلفیر کے مطابق بجٹ ،عمارت اور دیگر بنیادی سہولیات موجود ہے لیکن پھر بھی صوبائی حکومت ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے جو کہ اس صوبے کے اُن خواتین کے ساتھ ظلم ہے جو کام کے دوران جنسی ہراساں کے شکار ہوجاتیں ہیں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نہیں چاہتی کہ ایسے واقعات کے خلاف کسی کو سزا ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف حکومت کی جانب سے دعوی کیا جاتا ہے کہ خواتین کو بااختیار بنایا جارہے اور دوسری جانب ان کو تحفظ فراہم نہیں کیا جاتاہے۔

Police Stations in FATA

شہزادہ فہد

فاٹا اصلاحات کو عملی جامع پہنانے کےلئے عملی سطح پر تیاریاں روز و شور سے کی جا رہی ہیں ، تمام ایجنسیوں کے پولٹیکل ایجنٹس کو اپنی اپنی ضروریات کے مطابق تھانوں کی تعداد اور علاقوں کا تعین کر نے کی ہدایات جا ری کر دی گئیں ہیں ، پولیٹکل ایجنٹس نے اپنی ایجنسیوں کے عمائدین کو اعتماد میں لے لیا ہے ، قبائلی علاقوں میں تھانوں کے قیام کا آغاز فرنٹیر ریجن( ایف آرز) سے کیا جائے گا، خیبر پختونخوا کی 7 ایجنسیوں میں تھانے قائم ہو نگے جس کے لئے ابتدائی طور پرپولیس کی نفری خیبر پختونخوا پولیس کی جانب سے مہیا کی جائے گی ، ایجنسیوں میں تعینات خاصہ دار فورس اور لیویز کو پولیس ٹرینگ دینے کی تجویز بھی زیر غور ہے جبکہ قابلیت اور معیار پر پورا نہ ہونے والے خاصہ داروں اور لیویز اہلکاروں کو ممکنہ طور پر ہینڈ شیک دیا جائے گا ، اس سے قبل پشاورکے بندوبستی اورفاٹا کی باﺅنڈری پر 31 راکٹ اور بلٹ پروف چوکیاں قائم کی جا چکی ہیں، متنی، اصحاب بابا ، ریگی للمہ، جالہ بیلہ ، شاغلی، مچنی گیٹ اور پشاور سے ملحقہ دیگر علاقوں میں چوکیوں میں ابتدائی طور چیک پوسٹیں بنائی جا رہی ہیں،ان میں سے ہر چوکی پر 32 اہلکاوں پر مشتمل پولیس اہلکار تعینات کئے جائیں گے کیا جا ئے گا ،پولیس حکام کے مطابق مذکورہ چوکیوں کے قیام سے شرپسندوں کے انٹری پوائنٹ سمیت ان کے چور راستے بند ہو جا ئینگے اور پشاور کی سیکورٹی میں مزید بہتری آئے گی ،پولیس چیکنگ پوائنٹ سے اسلحہ و بارود کی سپلائی کی روک تھام میںبھی مدد ملے گی اورآنے والے وقتوں میں پولیس کےلئے کا رآمد ثابت ہو نگی ،فاٹا کی تمام ایجنسیوں بشمول ایف آر ز تک تھانہ کلچر منتقل کرنے کےلئے سروے مکمل کیا جا چکا ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے تحصیل جمرود کو ایک آفیشل لیٹر بھی موصول ہوا تھا جس میں خیبرایجنسی کے انتظامیہ سے پولیس سٹیشنز بنانے کیلئے ایجنسی میں جگہ منتخب اور اعداد شمار دینے کا کہا گیا ہے

پولٹیکل انتظامیہ جنوبی وزیرستان نے ایجنسی میں مجوزہ 76پولیس اسٹیشن قائم کرنے کے لیے سیکرٹری لائاینڈ آرڈرکو خط

خیبر پختونخوامیں فاٹا انضمام کے اثرات ظاہرہوتے ہی پولٹیکل انتظامیہ جنوبی وزیرستان نے سیکرٹری لا ءکو ایجنسی میں پولیس اسٹیشن قائم کرنے کی تجویز پیش کرتے ہوئے خط ارسال کردیا جس کے مطابق ایجنسی میں 76پولیس اسٹیشنز قائم کئے جاسکتے ہیں،خط کے مطابق تحصیل سرویکئی میں 9پولیس اسٹیشن قائم کرنے کی گنجائش موجود ہے جبکہ لدھا میں 22پولیس اسٹیشن قائم کئے جاسکتے ہیں اسی طر ح خط میں وانا تحصیل میں 45پولیس اسٹیشنز قائم کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہیں، پولٹیکل انتظامیہ کے خط کے مطابق ان پولیس اسٹیشنز میں نو ہزار 160پولیس عملہ تعینات کیا جاسکتا ہے۔

 

Third Death anniversary of Army Public School Tragedy (Story of a Teacher)

تحریر :شہزادہ فہد

دسمبر آگیا پھر سے چلو مل کر چلیں مکتب

ننھی پری خولہ کے والد کا حوصلہ بلند
بیٹی کھونے اور پسلیاں ٹوٹنے کے باوجود استاد اے پی ایس سے منسلک رہے

بابا یہ لوگ بچوں کو کیوں ماررہے ہیں، شہید ننھی پری خولہ کا آخری سوال

ستمبر2014ء میں آرمی پبلک سکول میں تعینات ہونے والے پروفیسر الطاف کی اکلوتی بیٹی سانحہ کے دن اپنے بھائی اور بابا کے ساتھ سکول آئی تھی

ننھی پری خولہ اپنے بابا کے ساتھ کلاس میں پہنچی ہی تھی کہ دہشتگردوں نے حملہ کردیا،تین گولیاں سینے میں لگیں اوربابا کے سینے سے لپٹے ہوئے شہید ہوگئی

سانحہ آرمی پبلک سکول کی تیسری بر سی ، پروفیسر الطاف جیسے بلند حوصلہ افراد تعلیم کے دشمن اور بچوں کے قاتلوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گئے

بابا یہ” گولیاں کیوں “چل رہی ہیں، یہ ”کو ن لوگ ہیں“ یہ ”  بچوں کو کیوں مار رہے ہیں“ ،ں سوالوں کے جواب کی منتظر بچی باپ کی توجہ اس کے گولیوں سے چھلنی سینے کی جانب دلاتے ہوئے کہتی ہے کہ بابا آپ کا ”خون“ نکل رہا ہے، اس کے ساتھ ہی اس ننھی پھول جیسی بچی کی آواز بند ہو جاتی ہے، یہ پروفسیر الطاف کی کانوں میں گونجنے والی وہ آواز ہے جو سانحہ آرمی پبلک سکول میں ہمیشہ کیلئے خاموش کردی گئی، سانحہ اے پی ایس کے دوران یہ ننھی بچی سکول میں اپنے پہلے ہی دن سفاک قاتلوں کی درندگی کانشانہ بنی اور اپنے بابا کے سینے سے لپٹی ننھی پری خولہ شہادت کے رتبہ پرفائز ہوگئی، پروفیسر الطاف کا تعلق بالاکو ٹ کی ایک مڈل کلاس فیملی سے ہے ، ایم اے انگلش اور ایم اے اسلامیات کے بعد بالا کوٹ کے ایک نجی کالج میں درس و تدریس کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ، ستمبر2014ء میں انہیں پشاور آرمی پبلک سکول سے فون کال آتی ہے جس میں انہیں سکول میں پڑھانے کی آفر دی جا تی ہے ، پروفیسر الطاف اپنے عزیروں واقارب سے مشورے کے بعد پشاور منتقل ہو جا تے ہیں،16 دسمبر 2014ءکا سورج طلوع ہوتا ہے ، معمول کے مطابق پروفسیر الطاف سکول جانے کی تیاری میں مصروف ہو جا تے ہیں ان کا بیٹا یونیفارم پہن کر سکول جانے کےلئے تیار کھڑا ہے اس دوران اکلوتی بیٹی خولہ اپنے بڑے بھائی کے ہمراہ سکول جانے کی ضد کر تی ہے،بیٹی کے اسرار پر والد حامی بھر لیتے ہیں ، راستے میں بیٹی اپنے والد کو کہتی ہے کہ آج میں اپنے بھائی کے ساتھ سکول جاتے ہوئے بہت خوشی محسوس کررہی ہوں، پروفسیر الطاف جب سکول پہنچے تو اپنی بیٹی کو پرنسپل کے کمرے میں لے گئے جہاں پرنسپل سے مختصر تعارف کے بعد بچی کو سکول میں داخلے کی اجازت مل جاتی ہے، پرنسپل کے آفس سے نکل کر وہ کلاسزلینے چلے گئے اور بچی سے کہا کہ بیٹا کہ پرنسپل سے بات ہوگئی ہے آپ کل سے باقاعدہ یونیفارم میں آکر اپنی کلاس جوائن کرلوگی یہی باتیں کرتا وہ کلاس روم پہنچا اور کچھ ہی لمحوں کے بعد ایک زوردار دھماکہ کی آواز آتی ہے جب وہ بالکنی سے جھانکا تو مسلح افراد اوپر آرہے ہوتے ہیں جس پرپروفیسر نے کمرہ کادروازہ بند کرتے ہوئے بچوں کوزمین پرلیٹ جانے کیلئے کہا جبکہ اپنی بچی خولہ کوبھی اپنی آغوش میں لے لیا،دہشت گرد کمرے کا دروازہ توڑ کر اند ر داخل ہو تے ہی پروفیسر الطاف پرگولیوں کی بو چھاڑ کر دیتے ہیں جن میں تین گولیاں ان کے جسم کو چیرتی ہو ئی ان کی بچی کے جسم میں پیوست ہو جا تی ہیں ، پروفیسر الطاف کو ہو ش آتا ان کے زبان پر بے ساختہ خولہ کا نام آتا ہے وہ بد حواس ہو کر اپنی بچی کےلئے اٹھنے کی کوشش کرتے ہیں ان کا جسم زخموں سے چور چور ہوتا ہے ، ان کی پسلیاں کٹ چکی ہوتی ہیں، گھروالے انھیں بناتے ہیں کہ خولہ شہید ہو چکی ہے ، ہسپتال میں صحت یاب ہو کر انھیں آبائی گھر لایا جا تا ہے ، عزیر و اقارب انھیں بالا کورٹ میں کو ئی چھو ٹا مو ٹے کاروبار کا مشورہ دیتے ہیں، پروفسیر الطاف دوبارہ پشاور جانے پر بضد ہوتے ہیں صحت یابی کے بعد وہ اپنی کٹی پسلیوں کے ساتھ ایک بار پھر اپنے بلند اداروں اور ایک نئے عزم کے ساتھ آرمی پبلک سکول جانے کا ادادہ کر تے ہیں اور اپنے بچوں کو ساتھ لے کر واپس پشاور آ جا تے ہیں ، سانحہ آرمی پبلک سکول کی تیسری بر سی ہے، شہید بچوں کا خون رائیگاں نہیں گیا ، آج پروفیسر الطاف جیسے بلند حوصلے افراد دہشت گردوں کےلئے عبرت کا نشاں ہیں ، بیٹی کی شہادت اور جسمانی طور پر معذوری ان کے پہا ڑ جیسے عزم کے سامنے چیونٹی کی طر ح ثابت ہو ئی ہے ،یہ ہوتی ہے زندہ قوموں کی نشانی ہمیں اپنے ہیروز کو کبھی نہیں بھولنا چایہے، میں ایک شاعر تو نہیں ہوں لیکن اس واقعہ کو لکھتے ہوئے  میرے ذہین میں غزل کا ایک مصرہ آیا ہے کاش میں اسے پورا کر سکتا ۔

   IMG-20161217-WA0005دسمبر آگیا پھر سے چلو مل کر چلیں مکتب

Historic Site Discovered At Bus Repaid (BRT) Excavation

بس منصوبہ کی کھدائی کے دوران پشاور میں آثار قدیمہ سامنے آگئےآر بی ٹی سائٹ پر مغل دور حکومت کی تعمیرات میں استعمال ہو نے” وزیری اینٹ“ سے بنی ہو ئی زیر زمین نکاسی آب کے نالے یاتہہ خانہ نما سرنگ نے لوگوں کو ورطہ حیر ت میں ڈال دیا

کھدائی میں سامنے آنے والے قدیم آثار کی مزید چھان بین کی جائے تو صدیوں پرانی تاریخ کے بارے میں انکشافات سامنے آنے کا امکان ہے

 سرنگ نما نکاسی آب کے نالے میں وزیر اینٹ کا استعمال کیا گیا ہے، پشاور میں سرنگوں کا ذکرمغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے ”بابر نامے‘میں بھی کیا ہے

 قدیم آثار کی تاریخی حیثیت سے سائٹ پر کام کر نے والے انجنیئر بے خبر ، ضائع ہونے کا خدشہ ہے،محکمہ آثار قدیمہ کو بھی قومی ورثے کی دریافت کا علم نہیں ہوسکا

شہزادہ فہد

پشاور میں بس ریپڈ ٹرانزٹ( بی آر ٹی ) کی کھدائی کے دوران 17 ویں صدی عیسوی کے آثار قدیمہ سامنے آئی ہیں،پشاور میں تہہ خانوں کے بارے میں روایتی کہانیاں اور مفروضے سچ ثابت ہو نے لگے ہیں، تین صدی قبل مغل دور حکومت کی تعمیر ات کھدائی میں سامنے آ گئی ہیں جس کی تاریخی حیثیت سے سائٹ پر کام کر نے والے انجنیئر بے خبر ر ہیں جس کی وجہ سے قدیم آثار کے ضائع ہونے کا خدشہ ہے،محکمہ آثار قدیمہ کو بھی قومی ورثے کی دریافت کا علم نہیں ہوسکا ہے ،آر بی ٹی سائٹ پر مغل دور حکومت کی تعمیرات میں استعمال ہو نے” وزیری اینٹ“ سے بنی ہو ئی زیر زمین نکاسی آب کے نالے یاتہہ خانہ نما سرنگ نے لوگوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے، کھدائی میں سامنے آنے والے قدیم آثار کی مزید چھان بین کی جائے تو صدیوں پرانی تاریخ کے بارے میں انکشافات سامنے آنے کا امکان ہے، گور گھٹڑی میں پشاور کے مختلف مقامات میں زیر زمین تہہ خانوں کا ذکر مغل دور حکومت کے پہلے بادشاہ ظہیر الدین بابر نے ”بابر نامے‘اور ان کے پوتے اکبر نے اپنی سوانح عمری میںکیا ہے جبکہ روایتی کہانیوں میں ہندووںکے مذہبی رہنما گورتھ ناتھ کی گورگھٹڑی سے زیر زمین ڈبکی لگا کر پنج تیرتھ ( فردوس ) میں نکلنے کے مفروضے بھی سنائے جا تے ہیں،حاجی کیمپ اڈے کے قریب بس ریپڈ ٹرانزٹ کےلئے کی جانے والی بیس فٹ گہری کھدائی میں 17 ویں صدی عیسوی کے آثار کا ملنا بھی اسی سرنگوں کی کڑی ہوسکتی ہے جس کے بارے میں مزید چھان بین کی ضروت ہے ، بی آر ٹی کےلئے چند گز کی کھدائی میں ایک گول سرنگ نما تعمیر دریافت ہو ئی ، یہ قدیم تعمیر زیر زمین تہہ خانہ یا نکاسی آب کا نالہ ہوسکتا ہے، دریافت ہونے والے سرنگ کو مٹی اور اینٹیں رکھ کر بند کر دیا گیا ہے، پشاور میں اس سے قبل بھی متعدد مقامات پر نوادارت اور قدیم تعمیرات دریافت ہو چکی ہیں، تاریخ دانوں کے مطابق پشاور کا شمار وسطی ایشیا ءکے قدیم تر ین شہروںمیں ہوتا ہے ، پشاور میںملنے والے آثار قدیمہ اس شہر کے تاریخی ہونے کا واضح ثبوت ہیں ، نئی دریافت کے حوالے سے محکمہ آثارقدیمہ کے فوکل پرسن نواز الدین سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ دریافت ہو نے والی نئی سائٹ ممکنہ طور پر 18 ویں صدی کی ہو سکتی ہے ، ان کا کہنا تھا کہ تعمیرات میں وزیر اینٹ استعمال ہو ئی ہے لیکن یہ تعمیرات سکھ دور حکومت سے مشابہت رکھتی ہے ، پشاور میں مغل دور حکومت کے بعد سکھوں کا راج شرو ع ہوا تو اس وقت کے حکمران رنجیت سنگھ نے پشاور میں حکومت کمزور پڑھنے پر جنرل اویٹبل کو گورنر بنا کر بھیجا ، نئے گورنر نے آتے ہی پشاور کا نقشہ تبدیل کر دیا ، انھوں نے 18 ویں صدی میں اس وقت کا جدید ترین ڈرین سسٹم متعارف کروایا ، جنرل اویٹبل کا تعلق اٹلی سے تھا ،انھوںنے پشاور میں دیوار شہر کو تین حصوں کی بجائے ایک دیوار میں تبدیل کروایا،

2

The 200th birthday of Sir Syed Ahmed Khan, celebration in India, Pakistan’s weird

شہزاد ہ فہد

سر سید احمد خان کی200 ویں سالگرہ ، انڈیا میں جشن ، پاکستانی غافل

مسلمانوں میں ہم آہنگی، مذہبی رواداری کا درس اورتعلیمی شعور اجاگر کر نے والے قومی ہیرو کی سالگرہ پر صوبہ بھر میں کو ئی تقریب کا اہتما م نہیں کیا گیا

انڈیا مین گرینڈ لیول پر علی گڑھ اور دہلی میں متعدد تقاریب منعقد کی گئیں، تعلیم کا درس دینے والے ہیرو کا بیان پاکستاں میں صرف تاریخ کی درسی کتابوں میں کیا جاتا ہے

متقی خان المعروف سر سید 17 اکتوبر 1871 ءکو پیدا ہوئے ،سر سید احمد خان کی خدمات کو مدنظر رکھتے ہو ئے سرکاری سطح پر تقریب کا انعقاد کیا جائے گا ،ڈائریکٹر ایچ ای آراے ڈاکٹر خالد

مسلمانوں میں ہم آہنگی، مذہبی رواداری کا درس اورتعلیمی شعور اجاگر کر نے والے قومی ہیرو سر سید احمد خان کی پیدائش کے 200 سال پورے ہو گئے ہیں ، خیبر پختونخوا اور فاٹامیں تعلیم ادارو ں سمیت دیگر سرکاری ادارے عظیم شخصیت کی 2 سوویں یوم پیدائش سے بے خبر رہے ، صوبہ بھر میں کو ئی تقریب کا اہتما م نہیں کیا گیا ، عظیم ہیرو کو خراج تحسین پیش کر نے کے لئے انڈیا میں جشن منایا گیا ، گرینڈ لیول پر علی گڑھ اور دہلی میں تقاریب کا انعقاد کیا گیا ، تاہم خیبر پختونخوا میں یکجہتی اور تعلیم کا درس دینے والے ہیرو کو صرف درسی کتابوں اور نصاب تک محدود رکھا گیا ہے،تقسیم ہند میں مسلمانوں کےلئے الگ ملک بنانے اور تعلیم و ترقی میں قوم کی رہنمائی کر نے والے مسلمانوں کے قومی ہیرو سر سید احمد خان کا 200سو واں یوم پیدائش آج منایا جا رہا ہے ، سر سید احمد خان 17 اکتوبر 1871 ءکو پیدا ہو ئے تھے ،سید احمد بن متقی خان المعروف سر سید انیسویں صدی کے ایک ہندوستانی مسلم نظری عملیت کے حامل اور فلسفی تھے، سر سید احمد خان ایک نبیل گھرانے میں پیدا ہوئے ،سر سید احمد خان نے قرآن اور سائنس کی تعلیم مغل دربار میں ہی حاصل کی جس کے بعد انہیں وکالت کی اعزازی ڈگری یونیورسٹی آف ایڈنبرا سے عطا کی گئی، بغاوت ختم ہونے کے بعد انہوں نے اسباب بغاوب ہند پر ایک رسالہ لکھا جس میں رعایائے ہندوستان کو اور خاص کر مسلمانوں کو بغاوت کے الزام سے بری کیا، سرسید احمد خان نے مغربی طرز کی سائنسی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے جدید اسکولوں اور جرائد کا اجرا کیا،سر سید احمد خان کو پاکستان اور بھارتی مسلمانوں میں ایک موثر شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے ،انہوں نے دیگر مسلم رہنماو¿ں بشمول محمد اقبال اور محمد علی جناح کو بھی متاثر کیا، سر سید احمد خان کی اسلام کو سائنس اور جدیدیت کے ساتھ ہم آہنگی کی رویت ڈالی، پاکستان میں کئی سرکاری عمارتوں اور جامعات اور تدریسی اداروں کے نام سر سید کے نام پر ہیں،خیبر پختونخوا بشمول فاٹا میں عظیم ہیرو کو خراج تحسین پیش کر نے کےلئے سرکاری سطح پر کو ئی تقریب کا انعقاد نہیں کیا گیا ،اس حوالے سے سپیشل سیکرٹری اینڈ چیئرمین ایچ ای آر اے ڈاکٹر خالد خان نے روزنامہ 92 نیوز سے بات چیت کرتے ہو ئے کہا کہ تعلیم کا لفظ زبان پر آتے ہی پہلا نام سر سید احمد خان کا آتا ہے ان کا کہنا تھا کہ چندروز بعد محکمے کے زیر اہتمام سر سید احمد خان کی خدمات کو مدنظر رکھتے ہو ئے سرکاری سطح پر تقریب کا انعقاد کیا جائے گا ۔sir syed ahmad khan 2