Tag Archives: world

Leather industry and Animal sacrificial skins چمڑے کی صنعت اور قربانی کی کھالیں

شہزادہ فہد

ملکی معیشت میں ریڑی کی ہڈی کا کردار ادا رکرنے والی چمڑے کی صنعت عیدا لاضحی پر زبوں حالی کا شکار ہوگئی ، کھالوں کے ریٹ کم ہونے سے تاجر پریشان اربوں رپوں کا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے ، حکومت کی جانب سے ٹیکسوں کی بھرمار کی وجہ سے غیر ملکی کمپنیوں نے بھی منہ موڑ لیا ، صوبائی دارلحکومت پشاور میں عید الاضحی کے بعد مختلف مقاما ت پر کھالوں کی منڈیاں سج جاتی ہیں تاہم اس بار گزشتہ سال کی نسبت کھالوں کے نرخوں میں کمی واقع ہونے سے چمڑے کے کاروبار سے وابستہ تاجر عیدالاضحی پر منافع کی بجائے نقصان اٹھانے لگے ہیں، مقامی تاجروں کے مطابق خریداری اور فروخت پر اضافی ٹیکس کی وجہ سے کھالوں کے نرخوںمیں کمی کی گئی ہے اسی طرح ملکی سطح کے بڑے تاجربھی بڑی تعداد میں کھالوں کی خریداری نہیں کررہے ، کیونکہ بیرون ملک کھالوں کی بر آمد دات پر اضافی ٹیکسوں کی ادائیگی پر ڈیل نہیں کی جارہی ہے، پشاور میں چمڑافروشی کے کاروبار کےلئے عید الاضحی پر قصاب خانہ ، رنگ روڈ ، لنڈی سٹرک اور سینما روڈ پر منڈیاں لگائی جاتی ہیں، جہاں صوبے بھر سے قربانی کے جانوروں کی کھالیں فروخت کے بعد اکٹھی کی جاتی ہیں جو کہ بعدازاں پنجاب اور دیگر صوبوں میں پڑے پیمانے پر فروخت کی جاتی ہیں ، رواں سال نرخوں میں کمی ہونے سے ملی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ، گزشتہ سال گائے کی کھال 15 سو روپے سے 25سو روپے تک فروخت ہوئی ، اس سے دوسال قبل قیمتیں 2 ہزار سے4 ہزار تک تھی ، اسی طرح رواں سال بکرے اور دنبے کی کھال20 روپے میں فروخت ہورہی ہے جو کہ گزشتہ سال 150 سے 250 روپے تک فروخت ہوتی تھیں، قیمتوں میں کمی ہونے کی دیگر وجوہات میں ملکی سطح پر چمڑے کی فیکٹریوں اور غیر ملکی سطح پر چمڑے کی فیکٹریوں کی خریداری میں عدم دلچسپی بنائی جاتی ہے،چمڑے کے تاجروں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ چمڑے کے کاروبار سے منسلک افراد کی مشکلات کا ازالہ کیا جائے ۔

پاکستان کا شمار دنیا بھر میں سب سے زیادہ قربانی کے جانوروں کی کھالیں برآمد کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے

پاکستان میں رواں سال عیدالاضحی پر لاکھوں قربانی کے جانور ذبح کئے گئے ، پاکستان کا شمار دنیا بھر میں سب سے زیادہ قربانی کے جانوروں کی کھالیں برآمد کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے ، یہ قربانی کی کھالیں کوریا، چاپان،جرمنی، امریکہ ،یورپ، چین اور دیگر ممالک بر آمد کی جاتی ہیں،، خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان سے قربانی کی کھالیں پنجاب کے چمڑے کی فیکٹریوں کو بھجوائی جاتی ہیں، جہاں کھالوں کی فینشنگ کرکے چمڑے کی مصنوعات بنائی جاتی ہیں

 

قربانی کی کھال کو محفوظ بنایا جاررہا ہے

دنیا بھر میں چمڑے سے بنی ہوئی چیزیں پسند کی جاتی ہیں ،جنھیں مہنگے داموں فروخت کرکے کثیر زرمبادلہ کمایا جاتاہے

چمڑے سے بننے والے اشیاءمیں لیدر جیکٹس، بیگز، سیٹ کورز، جوتے ، کاسلیٹکس اور دیگر اشیاءشامل ہیں اسی طرح چمڑے سے ربڑ بھی تیار کیا جاتا ہے ، جس سے ٹائر م ٹیوب، اور دیگر اشیاءبنائی جاتی ہیں ، حکومت اگر پاکستان میں چمڑے کے کاروبار کرنے والوں کو خصوصی مراعات فراہم کرے تو پاکستانی معیشت کو بہتر کیا جاسکتا ہے ۔

کھالوں کے کاروبار سے وابسطہ تاجر نہیں ہی دینی مدارس بھی متاثر ہونگے

پشاور سمیت صوبہ بھر میں قربانی کے جانوروں کے کھالوں کی قیمتوں میں کمی سے جہاں کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا وہاں کھال کی قیمتیں گرنے کے باعث مختلف سماجی ادارے ، مدارس کو دیئے جانے والے کھالوں سے منتظمین کو مالی مشکلات کاسامنا کرنا پڑا ، پشاور میں قائم ایک دینی مدرسے کے طالب علم عصمت اللہ فقیرکا کہنا ہے کہ کھالوں کی آمد ن سے تین ماہ سے پانچ ماہ تک مدرسے کا لنگر اور دیگر امور میں مدد ملتی تھی تاہم اس مرتبہ انھیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا،ا نھوںنے صوبائی حکومت سے دینی مدارس کو خصوصی پیکج دینے کا مطالبہ کیا ہے ، کھالوں کی قیمتیں گرنے کے باعث ان کے اکٹھے کرنے کی سرگرمیاں بھی کم رہیں

Peshawar journalist unemployment

2018
صحافیوں کے لئے بھاری رہا،5قتل،درجنوں بے روزگار کئے گئے

پشاور میں مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز سے وابستہ193 سے زائد افراد کو نوکریوں سے فارغ ،بیشتر اداروں میں کارکنوں کی تنخوا ہوں اور مراعات سے کٹوتی کی گئی

گزشتہ سال پاکستانی میڈیا بدترین دورسے گزرا بڑے بڑے میڈیاہاوسز ڈاون سائزنگ کی زد میں رہے، پی ایف یو جے کی کال پر احتجاجی مظاہرے ہوئے

نئے سال کا چڑھتا سورج بھی اچھی نوید لے کر نہیں طلوع نہیں ہوا، پہلے ہی ہفتے 13کارکن فارغ کردئیے گئے ۔

 گزشتہ سال 2018کو ملک کے لئے تبدیلی اور خوشحالی کا سال قرار دیا جاتا ہے وہاں شعبہ ابلاغ عامہ سے تعلق رکھنے والے افراد پر بھاری گزرا، گزشتہ سال صوبے بھر میں پانچ صحافیوں کوقتل کیا گیا جبکہ پشاور میں مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز سے وابستہ193 سے زائد افراد کو نوکریوں سے فارغ کیا گیا ، ان میں52 سے زائد افراد کا تعلق رپورٹنگ اور سب ایڈیٹنگ سے تھا اسی طرح بیشتر اداروں میں کارکنوں کی تنخوا ہوں اور مراعات سے کٹوتی کی گئی ، 2019 کا پہلا ہفتہ بھی شعبہ صحافت و ابلاغ عامہ کے کارکنوں کےلئے پر امید ثابت نہ ہوا،گزشتہ سال شعبہ ابلاغ عامہ سے تعلق رکھنے والوں کےلئے مشکل ترین گزرا ، خیبر پختونخوا میں فرائض منصبی کے دوران پانچ صحافیوں کو قتل کیا گیا ،11 جون کو ہری پور میں نجی ٹی وی کے رپورٹر بخشش الہیٰٰ کو جرائم پیشہ افراد کے خلاف خبر دینے کی پاداش میں قتل کیا گیا ،اس طرح 11 اکتوبر کو صوابی میںنامعلوم افراد کی جانب سے ہارون خان کو گھر کے قریب نشانہ بنایا گیا ، اکتوبر کے مہینے میں دو صحافیوں کو قتل کیا گیا جن میں سہیل خان کو 16 اکتوبر کو ہری پور اور 30 اکتوبر کو چارسدہ میں احسان اللہ شیرپاو¾ کو موت کے گھاٹ اتارا گیا،سال کے آخری مہینے میں نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے صحافی نورالحسن کو کیمرہ مین کے ہمراہ پشاو رکے رنگ روڈ پر ٹارگٹ کیا گیا حملے میں نورالحسن جانبر نہ ہوسکے ، قتل اور ٹارگٹ کے ساتھ ساتھ شعبہ صحافت و ابلاغ میں صحافیوں کا معاشی قتل بھی جاری رہا ، پشاور میں مختلف اخبارات اور چینلز کے193 ملازمین کو نوکریوں سے جبری برخاست کیا گیا جن میں 50 افرا دکا تعلق رپورٹنگ اور سب ایڈیٹنگ سے شعبے سے تھا ، سلسلہ رکا نہیں بیشتر میڈیا ہاوسز میں رپورٹرز اور سب ایڈیٹرز کی ماہانہ تنخواہوں میں کافی حد تک کٹوتی کی گئی، رپورٹنگ، کیمرہ ورک ، اسائمنٹ اور فوٹوگرافی سمیت دیگر فرائض سرانجام دینے والے ملازمین سے فیول، موبائل چارجز اور دیگر مراعات واپس لی گئیں،بیشتر بڑے گروپس کے ملازمین کو تاحال کئی ماہ کی تنخواہوں کی ادائیگی بھی تاحال نہیں کی گئی ، گزشتہ سال سے جاری ملک بھرکے میڈیا ہاو¿سز میں ایک کہرام کی کیفیت ہے، وہ صحافی ،اور کارکن جو طویل عرصہ سے ان اداروں کے ساتھ وابستہ تھے وہ بے روزگار کر دیئے گئے ہیں، گزشتہ سال پاکستانی میڈیا تاریخ کے بدترین دورسے گزرا،سینکڑوں صحافیوں کو بے روز گار کردیاگیا اور بڑے بڑے میڈیاہاوسز ڈاون سائزنگ کی زد میں ہیں،وہ اخبار جن کے بارے میں کوئی تصور بھی نہیں کرسکتاتھاکہ وہ بحران کی زدمیں آئیں گے یابند کردیئے جائیں گے اپنی بقاءکی جنگ لڑتے دکھائی دے رہے ہیں،ملک بھر میں صحافیوں کی نمائندہ تنظیم پی ایف یو جے کی کال پرملک بھر میں صحافیوں نے احتجاجی مظاہرے کئے اور کارکنوں کے معاشی قتل عام پراحتجاج کیا، پشاور سمیت ملک بھر میں صحافتی شعبے سے وابستہ افراد نئے سال کی آمد پر معاشی استحکام کےلئے پر امید تھے کہ اس دوران نئے سال کے پہلے ہفتے میں روزنامہ ایکسپریس سے پانچ سب ایڈیٹرز ، کی بنچ آپریٹر اور پیج میکر سمیت 13 افراد کو نوکری سے فارغ کیا گیا ، پشاور میں جنگ میڈیا گروپ سے8 رپورٹر، سب ایڈیٹر ز سمیت مجموعی طور پر 70 کارکنوں ،کیپٹل نیوز سے2 رپورٹرز، 2 کیمرہ مین سمیت6 ،دنیا نیوز سے3 کیمرہ مین سمیت 13،آج نیوز سے 2 رپورٹرز،اخبار خیبر سے 9 سب ایڈیٹرز اور 7 رپورٹر سمیت42 کارکنوں ایکسپریس میڈیا گروپ میں روزنامہ ایکسپریس میں5 رپورٹرز ،5 سب ایڈیٹرز اور 2 فوٹو گرافر ، ایکسپریس ٹریبیون سے 6 رپورٹرز ،تین سب ایڈیٹرزاور ایک فوٹو گرافر سمیت 69 کارکنوں کو نوکری سے فارغ کیا گیا ہے اسی طرح 24  نیوز سے بھی 2رپورٹر سمیت کارکنوں کو گھر بھیجا گیا ۔

Mahabat Khan Mosque Condition unspecified flow

شہزادہ فہد
مغلیہ دور حکومت میں بنائی جانی والی تاریخی اہمیت کی حامل مسجد مہابت خان کی حالت ناگفتہ بہہ ہو گئی ، حکومتی عدم توجہ کے باوجود مغل طرز تعمیر کا شاہکار صدیوں پرانی مسجد اپنی تاریخی حیثیت برقرار رکھے ہو ئے ہے، مسجد کے اطراف میں بنائی جانےوالی غیر قانونی دکانیں پلازے مسجد کی تا ریخی حیثیت پر اثر انداز ہو نے لگے ہیں، مختلف قوموں کی پشاور پر حکمرانی کی گواہ مسجد جو زلزلوں اور موسم کی شدت کو تو سہہ گئی تاہم انسانوں نے مسجد کے قریب غیر قانونی تعمیرات کر کے مسجد کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا، مسجد کے قریب پلازوں اور دکانوں کی آباد کاری سے مسجد کی بنیادیں کھوکھلی ہو گئی ہیں جسکی وجہ سے مسجد کی دیواریں کسی بھی وقت منہدم ہو سکتی ہیں، صحن کا فرش اور کئی حصے بیٹھ چکے ہیں ، مسجد کو نمی اور قدرتی آفات سے محفوظ بنانے کےلئے9فٹ اونچائی پر بنایا گیا تھا اور اطراف میں بر آمدے بنائے گئے تھے جس پر دکاندار قابض ہو گئے ہیں اور دکانوں کو وسیع بنانے کےلئے کھدائی کی گئی ہے جس سے مسجد کی دیواریں اور فرش بیٹھ گیا ہے، صدیوں سے آباد پشاور شہر کی تاریخ صرف کتابوں میں ہی نہیں ملتی بلکہ اس کے ثبوت بھی موجود ہیں، یوں تو پشاور بھر میںدرجنوں مقامات ہیں جس سے اس خطے میں آباد رہنے والی قوموں بارے آگاہی ملتی ہے ، ان میں سے ایک مسجد مہابت خان بھی ہے جو کہ مغل طرز تعمیر کا ایک شاہکار ہے ، پشاو رمیں واقع تاریخی اہمیت کی حامل قدیم مسجد مہابت خان حکومتی عدم توجہی کا شکار رہی ہے ، کئی حکومتیں گزر گئی تاریخی حیثیت کے حامل مسجد کی حفاظت کے لئے کسی بھی دور حکومت میں جامع حکمت عملی نہ بنائی جاسکی ،مسجد کے اطراف میں قائم دکانیں اورپلازے انٹکویٹی ایکٹ کی خلاف ورزی ہونے کے ساتھ تاریخی مسجد کی بقاءکےلئے خطرہ ثابت ہو نے لگے ہیں،اس حوالے سے محکمہ آثار قدیمہ کے فوکل پرسن نواز الدین صدیقی کا کہنا تھا کہ مسجد کی اصل حالت برقرار رکھنے کےلئے اقدامات شروع کر دئیے گئے ہیں، پہلے مرحلے میں ناز سینما روڈ پر پانچ پانچ دکانوں کو خالی کرایا جائےگا،حکومت کی جانب سے مسجد کی مرمت و بحالی کےلئے 8 کروڑ 77 لاکھ روپے کا فنڈجاری کیا گیا ہے جس میں رواں سال 2کروڑ روپے جون کے مہینے تک خرچ کئے جائینگے، دوسری جانب مسجد کے اطراف میں قائم تجاوزات اور مسجد کی دکانوں میں موجود کرائے داروں کے باعث کام سست روی کا شکار ہے، دکانوں کو خالی کرانے کےلئے تمام تاجروں کو نوٹسز جا ری کر دئیے گئے تاہم تاجروں کی جانب سے مرحلہ دار دکانیں خالی کر انے کا مطالبہ کیا گیا ہے ، مسجد کی عمارت کو محفوظ بناکر اس کی تاریخی اہمیت کو بحال رکھا جاسکتا ہے جو کہ وقت کی اہم ضرورت ہے ۔

مسجد مہابت خان کسی شخصیت کا نام نہیں تھا بلکہ یہ کابل ، پشاور کے گورنر کا لقب تھا۔
پشاور میں واقع تاریخی مسجد مہابت خان کا نام مغلیہ حکمران یا کسی اہم شخصیت کے نام سے منسوب نہیں گیا ، مہابت خان کابل اور پشاو رکے گورنرلقب تھا جوکہ چار صدی قبل باپ بیٹے کو دیا گیا تھا ،مغل بادشاہ شاہ جہان اور اورنگزیب کے دور حکومت میں زمانہ بیگ کو کابل اور پشاو رکا گورنر نامزد کیا گیا ، زمانہ بیگ کی وفات کے بعد ان کے بیٹے مرزا لوراسپ کو 1658 ءمیں گورنر نامزد کیا گیا جنھوں نے مسجد مہابت خان کی تعمیر میں دلچسپی لی اور دو سال میں مسجد کی تعمیر مکمل کی ۔

مسجد کی تعمیر میں دال چاول انڈے پیس کر میٹریل میں مکس گئے تاکہ مضبوطی کافی عرصہ تک قائم رہے چونے اور کنجور سٹون بھی استعما ل کیا گیا۔
مسجد مہابت خان انجنیئرنگ کے لحاظ مغلیہ دور حکومت کی بہترین تعمیرات کا شاندار نمونہ ہے ، مسجد کو سیم سے محفوظ رکھنے کےلئے اونچائی پر بنا یا گیا ، مسجد کی عمارت کے نیچے مٹی کی بھرائی کی گئی اور مسجد کے باہر کھلے برآمدے بنائے گئے ، تاکہ مسجد قدرتی حادثات سے محفوظ رہے، مسجد کی عمارت زمین سے 9 فٹ اونچائی پر بنائی گئی ، مسجد کی تعمیر میں چونے اور کنجور سٹون کا استعمال کیا گیا ، مختلف دیواروںمیں دال چاول انڈے پیس کر تعمیراتی میٹریل میں مکس کئے گئے ، مسجد کی دیواروں پر اسلامی پینٹنگ (سٹکو) اور کھڑکیوں میں رنگین شیشے لگائے گئے ۔

 

Police Stations in FATA

شہزادہ فہد

فاٹا اصلاحات کو عملی جامع پہنانے کےلئے عملی سطح پر تیاریاں روز و شور سے کی جا رہی ہیں ، تمام ایجنسیوں کے پولٹیکل ایجنٹس کو اپنی اپنی ضروریات کے مطابق تھانوں کی تعداد اور علاقوں کا تعین کر نے کی ہدایات جا ری کر دی گئیں ہیں ، پولیٹکل ایجنٹس نے اپنی ایجنسیوں کے عمائدین کو اعتماد میں لے لیا ہے ، قبائلی علاقوں میں تھانوں کے قیام کا آغاز فرنٹیر ریجن( ایف آرز) سے کیا جائے گا، خیبر پختونخوا کی 7 ایجنسیوں میں تھانے قائم ہو نگے جس کے لئے ابتدائی طور پرپولیس کی نفری خیبر پختونخوا پولیس کی جانب سے مہیا کی جائے گی ، ایجنسیوں میں تعینات خاصہ دار فورس اور لیویز کو پولیس ٹرینگ دینے کی تجویز بھی زیر غور ہے جبکہ قابلیت اور معیار پر پورا نہ ہونے والے خاصہ داروں اور لیویز اہلکاروں کو ممکنہ طور پر ہینڈ شیک دیا جائے گا ، اس سے قبل پشاورکے بندوبستی اورفاٹا کی باﺅنڈری پر 31 راکٹ اور بلٹ پروف چوکیاں قائم کی جا چکی ہیں، متنی، اصحاب بابا ، ریگی للمہ، جالہ بیلہ ، شاغلی، مچنی گیٹ اور پشاور سے ملحقہ دیگر علاقوں میں چوکیوں میں ابتدائی طور چیک پوسٹیں بنائی جا رہی ہیں،ان میں سے ہر چوکی پر 32 اہلکاوں پر مشتمل پولیس اہلکار تعینات کئے جائیں گے کیا جا ئے گا ،پولیس حکام کے مطابق مذکورہ چوکیوں کے قیام سے شرپسندوں کے انٹری پوائنٹ سمیت ان کے چور راستے بند ہو جا ئینگے اور پشاور کی سیکورٹی میں مزید بہتری آئے گی ،پولیس چیکنگ پوائنٹ سے اسلحہ و بارود کی سپلائی کی روک تھام میںبھی مدد ملے گی اورآنے والے وقتوں میں پولیس کےلئے کا رآمد ثابت ہو نگی ،فاٹا کی تمام ایجنسیوں بشمول ایف آر ز تک تھانہ کلچر منتقل کرنے کےلئے سروے مکمل کیا جا چکا ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے تحصیل جمرود کو ایک آفیشل لیٹر بھی موصول ہوا تھا جس میں خیبرایجنسی کے انتظامیہ سے پولیس سٹیشنز بنانے کیلئے ایجنسی میں جگہ منتخب اور اعداد شمار دینے کا کہا گیا ہے

پولٹیکل انتظامیہ جنوبی وزیرستان نے ایجنسی میں مجوزہ 76پولیس اسٹیشن قائم کرنے کے لیے سیکرٹری لائاینڈ آرڈرکو خط

خیبر پختونخوامیں فاٹا انضمام کے اثرات ظاہرہوتے ہی پولٹیکل انتظامیہ جنوبی وزیرستان نے سیکرٹری لا ءکو ایجنسی میں پولیس اسٹیشن قائم کرنے کی تجویز پیش کرتے ہوئے خط ارسال کردیا جس کے مطابق ایجنسی میں 76پولیس اسٹیشنز قائم کئے جاسکتے ہیں،خط کے مطابق تحصیل سرویکئی میں 9پولیس اسٹیشن قائم کرنے کی گنجائش موجود ہے جبکہ لدھا میں 22پولیس اسٹیشن قائم کئے جاسکتے ہیں اسی طر ح خط میں وانا تحصیل میں 45پولیس اسٹیشنز قائم کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہیں، پولٹیکل انتظامیہ کے خط کے مطابق ان پولیس اسٹیشنز میں نو ہزار 160پولیس عملہ تعینات کیا جاسکتا ہے۔

 

Third Death anniversary of Army Public School Tragedy (Story of a Teacher)

تحریر :شہزادہ فہد

دسمبر آگیا پھر سے چلو مل کر چلیں مکتب

ننھی پری خولہ کے والد کا حوصلہ بلند
بیٹی کھونے اور پسلیاں ٹوٹنے کے باوجود استاد اے پی ایس سے منسلک رہے

بابا یہ لوگ بچوں کو کیوں ماررہے ہیں، شہید ننھی پری خولہ کا آخری سوال

ستمبر2014ء میں آرمی پبلک سکول میں تعینات ہونے والے پروفیسر الطاف کی اکلوتی بیٹی سانحہ کے دن اپنے بھائی اور بابا کے ساتھ سکول آئی تھی

ننھی پری خولہ اپنے بابا کے ساتھ کلاس میں پہنچی ہی تھی کہ دہشتگردوں نے حملہ کردیا،تین گولیاں سینے میں لگیں اوربابا کے سینے سے لپٹے ہوئے شہید ہوگئی

سانحہ آرمی پبلک سکول کی تیسری بر سی ، پروفیسر الطاف جیسے بلند حوصلہ افراد تعلیم کے دشمن اور بچوں کے قاتلوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گئے

بابا یہ” گولیاں کیوں “چل رہی ہیں، یہ ”کو ن لوگ ہیں“ یہ ”  بچوں کو کیوں مار رہے ہیں“ ،ں سوالوں کے جواب کی منتظر بچی باپ کی توجہ اس کے گولیوں سے چھلنی سینے کی جانب دلاتے ہوئے کہتی ہے کہ بابا آپ کا ”خون“ نکل رہا ہے، اس کے ساتھ ہی اس ننھی پھول جیسی بچی کی آواز بند ہو جاتی ہے، یہ پروفسیر الطاف کی کانوں میں گونجنے والی وہ آواز ہے جو سانحہ آرمی پبلک سکول میں ہمیشہ کیلئے خاموش کردی گئی، سانحہ اے پی ایس کے دوران یہ ننھی بچی سکول میں اپنے پہلے ہی دن سفاک قاتلوں کی درندگی کانشانہ بنی اور اپنے بابا کے سینے سے لپٹی ننھی پری خولہ شہادت کے رتبہ پرفائز ہوگئی، پروفیسر الطاف کا تعلق بالاکو ٹ کی ایک مڈل کلاس فیملی سے ہے ، ایم اے انگلش اور ایم اے اسلامیات کے بعد بالا کوٹ کے ایک نجی کالج میں درس و تدریس کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ، ستمبر2014ء میں انہیں پشاور آرمی پبلک سکول سے فون کال آتی ہے جس میں انہیں سکول میں پڑھانے کی آفر دی جا تی ہے ، پروفیسر الطاف اپنے عزیروں واقارب سے مشورے کے بعد پشاور منتقل ہو جا تے ہیں،16 دسمبر 2014ءکا سورج طلوع ہوتا ہے ، معمول کے مطابق پروفسیر الطاف سکول جانے کی تیاری میں مصروف ہو جا تے ہیں ان کا بیٹا یونیفارم پہن کر سکول جانے کےلئے تیار کھڑا ہے اس دوران اکلوتی بیٹی خولہ اپنے بڑے بھائی کے ہمراہ سکول جانے کی ضد کر تی ہے،بیٹی کے اسرار پر والد حامی بھر لیتے ہیں ، راستے میں بیٹی اپنے والد کو کہتی ہے کہ آج میں اپنے بھائی کے ساتھ سکول جاتے ہوئے بہت خوشی محسوس کررہی ہوں، پروفسیر الطاف جب سکول پہنچے تو اپنی بیٹی کو پرنسپل کے کمرے میں لے گئے جہاں پرنسپل سے مختصر تعارف کے بعد بچی کو سکول میں داخلے کی اجازت مل جاتی ہے، پرنسپل کے آفس سے نکل کر وہ کلاسزلینے چلے گئے اور بچی سے کہا کہ بیٹا کہ پرنسپل سے بات ہوگئی ہے آپ کل سے باقاعدہ یونیفارم میں آکر اپنی کلاس جوائن کرلوگی یہی باتیں کرتا وہ کلاس روم پہنچا اور کچھ ہی لمحوں کے بعد ایک زوردار دھماکہ کی آواز آتی ہے جب وہ بالکنی سے جھانکا تو مسلح افراد اوپر آرہے ہوتے ہیں جس پرپروفیسر نے کمرہ کادروازہ بند کرتے ہوئے بچوں کوزمین پرلیٹ جانے کیلئے کہا جبکہ اپنی بچی خولہ کوبھی اپنی آغوش میں لے لیا،دہشت گرد کمرے کا دروازہ توڑ کر اند ر داخل ہو تے ہی پروفیسر الطاف پرگولیوں کی بو چھاڑ کر دیتے ہیں جن میں تین گولیاں ان کے جسم کو چیرتی ہو ئی ان کی بچی کے جسم میں پیوست ہو جا تی ہیں ، پروفیسر الطاف کو ہو ش آتا ان کے زبان پر بے ساختہ خولہ کا نام آتا ہے وہ بد حواس ہو کر اپنی بچی کےلئے اٹھنے کی کوشش کرتے ہیں ان کا جسم زخموں سے چور چور ہوتا ہے ، ان کی پسلیاں کٹ چکی ہوتی ہیں، گھروالے انھیں بناتے ہیں کہ خولہ شہید ہو چکی ہے ، ہسپتال میں صحت یاب ہو کر انھیں آبائی گھر لایا جا تا ہے ، عزیر و اقارب انھیں بالا کورٹ میں کو ئی چھو ٹا مو ٹے کاروبار کا مشورہ دیتے ہیں، پروفسیر الطاف دوبارہ پشاور جانے پر بضد ہوتے ہیں صحت یابی کے بعد وہ اپنی کٹی پسلیوں کے ساتھ ایک بار پھر اپنے بلند اداروں اور ایک نئے عزم کے ساتھ آرمی پبلک سکول جانے کا ادادہ کر تے ہیں اور اپنے بچوں کو ساتھ لے کر واپس پشاور آ جا تے ہیں ، سانحہ آرمی پبلک سکول کی تیسری بر سی ہے، شہید بچوں کا خون رائیگاں نہیں گیا ، آج پروفیسر الطاف جیسے بلند حوصلے افراد دہشت گردوں کےلئے عبرت کا نشاں ہیں ، بیٹی کی شہادت اور جسمانی طور پر معذوری ان کے پہا ڑ جیسے عزم کے سامنے چیونٹی کی طر ح ثابت ہو ئی ہے ،یہ ہوتی ہے زندہ قوموں کی نشانی ہمیں اپنے ہیروز کو کبھی نہیں بھولنا چایہے، میں ایک شاعر تو نہیں ہوں لیکن اس واقعہ کو لکھتے ہوئے  میرے ذہین میں غزل کا ایک مصرہ آیا ہے کاش میں اسے پورا کر سکتا ۔

   IMG-20161217-WA0005دسمبر آگیا پھر سے چلو مل کر چلیں مکتب

Historic Site Discovered At Bus Repaid (BRT) Excavation

بس منصوبہ کی کھدائی کے دوران پشاور میں آثار قدیمہ سامنے آگئےآر بی ٹی سائٹ پر مغل دور حکومت کی تعمیرات میں استعمال ہو نے” وزیری اینٹ“ سے بنی ہو ئی زیر زمین نکاسی آب کے نالے یاتہہ خانہ نما سرنگ نے لوگوں کو ورطہ حیر ت میں ڈال دیا

کھدائی میں سامنے آنے والے قدیم آثار کی مزید چھان بین کی جائے تو صدیوں پرانی تاریخ کے بارے میں انکشافات سامنے آنے کا امکان ہے

 سرنگ نما نکاسی آب کے نالے میں وزیر اینٹ کا استعمال کیا گیا ہے، پشاور میں سرنگوں کا ذکرمغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے ”بابر نامے‘میں بھی کیا ہے

 قدیم آثار کی تاریخی حیثیت سے سائٹ پر کام کر نے والے انجنیئر بے خبر ، ضائع ہونے کا خدشہ ہے،محکمہ آثار قدیمہ کو بھی قومی ورثے کی دریافت کا علم نہیں ہوسکا

شہزادہ فہد

پشاور میں بس ریپڈ ٹرانزٹ( بی آر ٹی ) کی کھدائی کے دوران 17 ویں صدی عیسوی کے آثار قدیمہ سامنے آئی ہیں،پشاور میں تہہ خانوں کے بارے میں روایتی کہانیاں اور مفروضے سچ ثابت ہو نے لگے ہیں، تین صدی قبل مغل دور حکومت کی تعمیر ات کھدائی میں سامنے آ گئی ہیں جس کی تاریخی حیثیت سے سائٹ پر کام کر نے والے انجنیئر بے خبر ر ہیں جس کی وجہ سے قدیم آثار کے ضائع ہونے کا خدشہ ہے،محکمہ آثار قدیمہ کو بھی قومی ورثے کی دریافت کا علم نہیں ہوسکا ہے ،آر بی ٹی سائٹ پر مغل دور حکومت کی تعمیرات میں استعمال ہو نے” وزیری اینٹ“ سے بنی ہو ئی زیر زمین نکاسی آب کے نالے یاتہہ خانہ نما سرنگ نے لوگوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے، کھدائی میں سامنے آنے والے قدیم آثار کی مزید چھان بین کی جائے تو صدیوں پرانی تاریخ کے بارے میں انکشافات سامنے آنے کا امکان ہے، گور گھٹڑی میں پشاور کے مختلف مقامات میں زیر زمین تہہ خانوں کا ذکر مغل دور حکومت کے پہلے بادشاہ ظہیر الدین بابر نے ”بابر نامے‘اور ان کے پوتے اکبر نے اپنی سوانح عمری میںکیا ہے جبکہ روایتی کہانیوں میں ہندووںکے مذہبی رہنما گورتھ ناتھ کی گورگھٹڑی سے زیر زمین ڈبکی لگا کر پنج تیرتھ ( فردوس ) میں نکلنے کے مفروضے بھی سنائے جا تے ہیں،حاجی کیمپ اڈے کے قریب بس ریپڈ ٹرانزٹ کےلئے کی جانے والی بیس فٹ گہری کھدائی میں 17 ویں صدی عیسوی کے آثار کا ملنا بھی اسی سرنگوں کی کڑی ہوسکتی ہے جس کے بارے میں مزید چھان بین کی ضروت ہے ، بی آر ٹی کےلئے چند گز کی کھدائی میں ایک گول سرنگ نما تعمیر دریافت ہو ئی ، یہ قدیم تعمیر زیر زمین تہہ خانہ یا نکاسی آب کا نالہ ہوسکتا ہے، دریافت ہونے والے سرنگ کو مٹی اور اینٹیں رکھ کر بند کر دیا گیا ہے، پشاور میں اس سے قبل بھی متعدد مقامات پر نوادارت اور قدیم تعمیرات دریافت ہو چکی ہیں، تاریخ دانوں کے مطابق پشاور کا شمار وسطی ایشیا ءکے قدیم تر ین شہروںمیں ہوتا ہے ، پشاور میںملنے والے آثار قدیمہ اس شہر کے تاریخی ہونے کا واضح ثبوت ہیں ، نئی دریافت کے حوالے سے محکمہ آثارقدیمہ کے فوکل پرسن نواز الدین سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ دریافت ہو نے والی نئی سائٹ ممکنہ طور پر 18 ویں صدی کی ہو سکتی ہے ، ان کا کہنا تھا کہ تعمیرات میں وزیر اینٹ استعمال ہو ئی ہے لیکن یہ تعمیرات سکھ دور حکومت سے مشابہت رکھتی ہے ، پشاور میں مغل دور حکومت کے بعد سکھوں کا راج شرو ع ہوا تو اس وقت کے حکمران رنجیت سنگھ نے پشاور میں حکومت کمزور پڑھنے پر جنرل اویٹبل کو گورنر بنا کر بھیجا ، نئے گورنر نے آتے ہی پشاور کا نقشہ تبدیل کر دیا ، انھوں نے 18 ویں صدی میں اس وقت کا جدید ترین ڈرین سسٹم متعارف کروایا ، جنرل اویٹبل کا تعلق اٹلی سے تھا ،انھوںنے پشاور میں دیوار شہر کو تین حصوں کی بجائے ایک دیوار میں تبدیل کروایا،

2

The 200th birthday of Sir Syed Ahmed Khan, celebration in India, Pakistan’s weird

شہزاد ہ فہد

سر سید احمد خان کی200 ویں سالگرہ ، انڈیا میں جشن ، پاکستانی غافل

مسلمانوں میں ہم آہنگی، مذہبی رواداری کا درس اورتعلیمی شعور اجاگر کر نے والے قومی ہیرو کی سالگرہ پر صوبہ بھر میں کو ئی تقریب کا اہتما م نہیں کیا گیا

انڈیا مین گرینڈ لیول پر علی گڑھ اور دہلی میں متعدد تقاریب منعقد کی گئیں، تعلیم کا درس دینے والے ہیرو کا بیان پاکستاں میں صرف تاریخ کی درسی کتابوں میں کیا جاتا ہے

متقی خان المعروف سر سید 17 اکتوبر 1871 ءکو پیدا ہوئے ،سر سید احمد خان کی خدمات کو مدنظر رکھتے ہو ئے سرکاری سطح پر تقریب کا انعقاد کیا جائے گا ،ڈائریکٹر ایچ ای آراے ڈاکٹر خالد

مسلمانوں میں ہم آہنگی، مذہبی رواداری کا درس اورتعلیمی شعور اجاگر کر نے والے قومی ہیرو سر سید احمد خان کی پیدائش کے 200 سال پورے ہو گئے ہیں ، خیبر پختونخوا اور فاٹامیں تعلیم ادارو ں سمیت دیگر سرکاری ادارے عظیم شخصیت کی 2 سوویں یوم پیدائش سے بے خبر رہے ، صوبہ بھر میں کو ئی تقریب کا اہتما م نہیں کیا گیا ، عظیم ہیرو کو خراج تحسین پیش کر نے کے لئے انڈیا میں جشن منایا گیا ، گرینڈ لیول پر علی گڑھ اور دہلی میں تقاریب کا انعقاد کیا گیا ، تاہم خیبر پختونخوا میں یکجہتی اور تعلیم کا درس دینے والے ہیرو کو صرف درسی کتابوں اور نصاب تک محدود رکھا گیا ہے،تقسیم ہند میں مسلمانوں کےلئے الگ ملک بنانے اور تعلیم و ترقی میں قوم کی رہنمائی کر نے والے مسلمانوں کے قومی ہیرو سر سید احمد خان کا 200سو واں یوم پیدائش آج منایا جا رہا ہے ، سر سید احمد خان 17 اکتوبر 1871 ءکو پیدا ہو ئے تھے ،سید احمد بن متقی خان المعروف سر سید انیسویں صدی کے ایک ہندوستانی مسلم نظری عملیت کے حامل اور فلسفی تھے، سر سید احمد خان ایک نبیل گھرانے میں پیدا ہوئے ،سر سید احمد خان نے قرآن اور سائنس کی تعلیم مغل دربار میں ہی حاصل کی جس کے بعد انہیں وکالت کی اعزازی ڈگری یونیورسٹی آف ایڈنبرا سے عطا کی گئی، بغاوت ختم ہونے کے بعد انہوں نے اسباب بغاوب ہند پر ایک رسالہ لکھا جس میں رعایائے ہندوستان کو اور خاص کر مسلمانوں کو بغاوت کے الزام سے بری کیا، سرسید احمد خان نے مغربی طرز کی سائنسی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے جدید اسکولوں اور جرائد کا اجرا کیا،سر سید احمد خان کو پاکستان اور بھارتی مسلمانوں میں ایک موثر شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے ،انہوں نے دیگر مسلم رہنماو¿ں بشمول محمد اقبال اور محمد علی جناح کو بھی متاثر کیا، سر سید احمد خان کی اسلام کو سائنس اور جدیدیت کے ساتھ ہم آہنگی کی رویت ڈالی، پاکستان میں کئی سرکاری عمارتوں اور جامعات اور تدریسی اداروں کے نام سر سید کے نام پر ہیں،خیبر پختونخوا بشمول فاٹا میں عظیم ہیرو کو خراج تحسین پیش کر نے کےلئے سرکاری سطح پر کو ئی تقریب کا انعقاد نہیں کیا گیا ،اس حوالے سے سپیشل سیکرٹری اینڈ چیئرمین ایچ ای آر اے ڈاکٹر خالد خان نے روزنامہ 92 نیوز سے بات چیت کرتے ہو ئے کہا کہ تعلیم کا لفظ زبان پر آتے ہی پہلا نام سر سید احمد خان کا آتا ہے ان کا کہنا تھا کہ چندروز بعد محکمے کے زیر اہتمام سر سید احمد خان کی خدمات کو مدنظر رکھتے ہو ئے سرکاری سطح پر تقریب کا انعقاد کیا جائے گا ۔sir syed ahmad khan 2

Breathing Floor In Peshawar museum(Victoria Dancing Hall)

_MG_7422_MG_7268

  سانس لینے و الے وکٹوریہ ڈانسنگ فلور 

وکٹوریہ حال کو 1897 ءمیں تعمیر کیا گیا تھا جس کو 1906 میں میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا تھا، ایکسپرٹس کی ٹیم نے مرمت کا کام شروع کردیا
،ملک بھر اپنی نوعیت کا واحد فرش ہے جو کہ چوبیس گھنٹے سانس لیتا ہے ،120سال سے پرانی لکڑی کو دوبارہ کیمیکل ٹریٹمنٹ کے بعد نصب کیا جائےگا

خیبر پختونخوا حکومت نے انگریز دور میں بنائے جانے والا ” وکٹوریہ ڈانسنگ فلور “کی مرمت و بحالی کا کام شروع کر دیا ہے ، وکٹوریہ حال کو 1897 ءمیں تعمیر کیا گیا تھا ، 1906\7 میں بلڈنگ کو میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا تھا ، موجود ہ حکومت نے 120 سال بعد لکڑی کے فرش کی مرمت و بحالی کا کام شروع کر دیا ہے ،اپنی نویت کا واحد فرش جو کو سانس لینے والا فرش بھی کہلاتا ہے کی ایک صدی بعد مرمت کی جا رہی ہے،خیبر پختونخوا حکومت نے وکٹوریہ میموریل ہال کا فرش دوبارہ کھول کر مرمت و بحالی کا کام شرو ع کر دیا ہے ، فرش میں استعمال ہو نے والی 120سال سے پرانی لکڑی کو دوبارہ کیمیکل ٹریٹمنٹ کے بعد نصب کیا جائےگا،محکمہ آثار قدیمہ و عجائبات کے فوکل پرسن نواز الدین صدیقی نے روزنامہ 92 نیوز کو بتایا کہ فرش کی مرمت و بحالی کےلئے آرکیالوجسٹ، آرکیٹکٹس، انجنیئرز پر مشتمل ایکسپرٹس کی ٹیم کام کر رہی ہے ،ان کا کہنا تھا کہ 120 سال پرانے فرش کو چند ایک جگہوں سے دیمک لگ چکا تھا، فرش کی لکڑی کو کیمیکل ٹریٹمنٹ کے بعد دوبارہ استعمال کے قابل بنایا جائے گا ، وکٹورین میموریل ہال کی پشاور میوزیم میں تبدیلی کے بعد میوزیم کا فرش جو کہ انگریزوں کی ثقافتی سرگرمیوں کےلئے بنایا گیا تھا ملک بھر اپنی نوعیت کا واحد فرش ہے جو کہ چوبیس گھنٹے سانس لیتا ہے ،بہترین تعمیر کا شاہکار ڈانسنگ فلور زمین سے چار فٹ اوپر ہے ، لکٹری کو دیمک لگنے کے پیش نظر فرش میں نالیاں بچھائی گئی تھیں جس سے ہوا فرش کے اندر گردش کر تی رہتی ہے،اس کا اہتمام اس لئے کیا گیا تھا کہ دیمک کے ساتھ اسے نمی سے بھی محفوظ رکھا جاسکے ،اسی لئے اسے سانس لیتا فرش بھی کہا جاتا ہے،چند دہائی قبل میوزیم کے قریب سڑک کی تعمیر سے ہوادان بندہو گئے تھے جس سے فرش کو نقصان پہنچا تھا موجود حکومت کی جانب سے مذکورہ ہوادانوں پر بر قی پنکھے لگاکر فرش کی مرمت و بحالی کا کام شروع کردیا گیا ہے ۔

ویکٹوریہ میموریل ہال کی ڈانسنگ فلور کی تبدیل ہو نے کی داستان
وکٹوریہ میموریل ہال کے پشاور میوزیم میں تبدیل کرنے کی داستان بڑی دلچسپ ہے ، انگریز دور حکومت میں اعلی ٰ افسران عمارت میںموجود ڈانسنگ فلو ر پر شام کے اوقات میں اپنی فیملی کے ہمراہ رقص کر تے تھے ، بتایا جاتا ہے کہ انگریز دور حکومت میں گندھار تہذیب کے نوادرات جو کہ خیبر پختونخوا کے علاقوں سے دریافت کی جا تی تھیںکو فوری طور پر ہندوستان منتقل کر دیا جاتا تھا ، تاہم بڑی قدامت والی اور وزنی نوادرات کو لے جانے میں دقت ہوتی، جو کہ بعدازاں وکٹوریہ میموریل ہال منتقل کیا جاتا تھا، عمارت میں بڑی تعداد میںنوادرات جمع ہو نے کے بعد میموریل ہال کو باقاعدہ میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا تھا ۔

پاکستان میں اپنی نویت کے واحد ڈانسنگ فرش کےلئے گورنر ہاوس سے مخصوص راہداری
پاکستا ن میں اپنی نویت کے واحد ڈانسنگ فرش کےلئے گورنر ہاوس سے ایک خاص راہدری دی گئی تھی جو کہ وکٹوریہ میموریل ہال پر اختتام پذیر ہو تی ، موجود ہ خیبر روڈ کے اوپر برسات بنائی گئی تھی جو کہ بعدازاں ختم کر دی گئی ، پشاور میں بنائے جانے والے ڈانسنگ فرش کےلئے قیمتی لکڑی کا استعمال کیا گیا جو کہ ایک صدی سے زائد عرصہ تک کاآمد رہی ،محکمہ آثار قدیمہ و عجائبات کی جانب سے ڈانسنگ فلور کی مرمت و بحالی کےلئے ، آرکیالوجسٹ ، انجنئیراور آرکیٹیکٹ پر مشتمل ماہر ین کی ٹیم نے وہی پرانی لکڑی کو دوبارہ استعمال کے قابل بنا کر مرمت کا آغاز کردیا ہے

 

New musical instrument For Peshawar Police Band

شہزادہ فہد

پشاور پولیس میں تبدیلی آگئی ، 25 سال سے پولیس بینڈ کے زیر استعمال آلات موسیقی تبدیل کر نے کا فیصلہ کیا گیا ہے ، نئے آلات پر20 لاکھ روپے سے زائد لاگت آئے گی ، پشاور پولیس نے25 سال بعد پولیس بینڈ کےلئے نئے آلات خریدنے کا فیصلہ کیا ہے ، گزشتہ روز پشاور پولیس لا ئز میں ایس پی کواڈینیشن اور دیگر حکام نے نئے آلات کا معائنہ کیا ، شادی کی خوشیوں کو دوبالا کر نے اور شہداءکو سلامی پیش کرنے والے پشاور پولیس کے 45 افراد پر مشتمل پائپ بینڈ اور گراس بینڈ کے پاس آلات موسیقی 25 سال پرانا تھا، روزنامہ 92 نیوز سے بات چیت کر تے ہو ئے ایس ایس پی کواڈینیشن قاسم علی خان کا کہنا تھا کہ پولیس بینڈ کےلئے نئے آلات موسیقی خریدنے کےلئے مختلف نجی کمپنیوں سے کوٹیشن طلب کی ہے ، بینڈ کے پاس موجود چند آلات میں خرابی آئی ہے جس کی وجہ سے نئے آلات خریدنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ، نئے آلات سے پولیس بینڈ اہلکاروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے ، پشاور پولیس بینڈ کے اہلکاروں کو جدید آلات کی فراہم سے ان کے فن میں نکھار آئے گا ، دنیا بھرکے ٹاپ پولیس بینڈ ز میں اول نمبر پر سکاٹ لینڈ دوئم پر نادرن آئرلینڈ اور بلترتیب کینڈا، آسٹریلیا،نیوزی لینڈ ، امریکہ فرانس سرفہرست ہیں، سرکاری سطح پر تقاریب کے انعقاد پر پشاورپولیس بینڈ کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہو ئے مزید بہتری کی IMG_20170925_140518ضرورت ہے ، تاکہ یہ فن مزید پروان چڑے ۔

 

پانی کا عالمی دن: معاشرہ کی بےحسی

khana badosh basti (2)رپورٹ و تصاویر ،شہزادہ فہد

دنیا بھر میں 22 مارچ کو پانی کا عالمی دن منا یا جاتا ہے، خیبر پختونخوا سیمت ملک بھر میں اس دن کے حوالے سے تقاریب منعقد کی جا تی ہیں تاہم صوبائی دارلحکومت پشاور میں رنگ روڈ پر ایسی دنیا آباد جو کہ حکومتی اداروں اور سیاسی جماعتوں کے رہنما سے اوجھل ہے ، رنگ روڈ پر 70 سے زائد خیموں میں آباد سیکڑوں خانہ بدوش صاف پانی کی بو ند بو ند کو ترس رہے ہیں ، شائد ان کا قصور یہ ہے کہ ان کے ووٹ نہیں ہیں ، رنگ روڈ پر واقع بے نظیر ہسپتال کی اراضی میں مقیم پنجاب اور بلوچستا ن کے خانہ بدوشوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے ،بجلی پانی اور گیس جیسی ضروریات نہ ہونے پر انھیں کو ئی ملال نہیں لیکن انسان کی بنیادی ضرورت پانی کی عدم دستیابی پر یہ لوگ حکومت اداروں اور سیاسی جماعتوں سے نالاں نظر آتے ہیں ، یہاں رہنے والے ایک خانہ بدوش افضل کا کہنا ہے کہ 70 سے زائد خاندان کو پینے کا پانی میسر نہیں ہے ان کا کہنا تھا کہ چھ سوسے زائد افراد یہاں آباد ہیں جن میں پنجاب کے علاقہ ملتان کے خانہ بندوش اور بلوچستان کے خانہ بدوش موجود ہیں ،جو کہ بنیادی سہولت سے محروم ہیں ، رنگ روڈ پر قائم خانہ بدوشوں پاکستان شہری ہیں ان میں بیشتر افراد کے پاس قومی شناختی کارڈ موجود ہے لیکن شائد ان کو نظر انداز اس لئے کیا جارہا ہے کہ ان کا ووٹ انداج نہیں ہوا ،حکومت کی جانب بنیادی سہولیات فراہم ہر شہری کا حق ہے ، ہمارا معاشرہ اتنا بے حسی کی انتہا پر پہنچ چکا ہے یہاں صرف مفادات کی خاطر کام کئے جا تے ہیں ،پانی کی قدر ان لوگوں سے کو ئی پوچھے ،صوبائی دارلحکومت میں جہاں دیگر مسائل سے شہری پریشان ہیں وہاں دیگر علاقوں میں بھی پینے کے صاف پا نی کے گو ںنا گوں مسائل حل ہو نے کا نام ہی نہیں لیتے، سرکا ری اعداد شمار کے مطابق خیبرپختونخوا میںغیر رجسٹرڈ67 ہزار سے زائد ا فراد کا لے یرقان میں مبتلا ہیں اور لاکھوں افراد پیٹ کی بیماریوں اور دیگر بیما ریوں بھی مبتلا ہیں،ماہرین ِ طب کے مطابق یرقان اور پیٹ کی بیما ریاں گندا پا نی پینے سے لا حق ہو تی ہیں ۔ خیبر پختونخوا میں موجودہ حکومت کے آتے ہی شہری سہولیات کےلئے محکمہ بنایا گیاتاہم بیشتر علاقوںمیں شہریوں کو پینے کا صاف پا نی میسر نہ ہو سکا ، دو دن بعد پا نی کے عالی دن کے موقع پر پشاور میں این جی او اور دیگر اداروں کی جانب سے مختلف مقامات پر تقاریب کے انعقاد کیا جا ئے جو کہ اخبارات اور ایکٹرانک میڈیا کی حد تک رہے گا، رنگ روڈ پر قائم سیکٹروں خانہ بدوش اس دن بھی پینے کے صاف پانی کے منتظر رہیں گے کہ شائد کو ئی تو ان کی آواز سن لے ۔

خانہ بدوش بستی میں پانی روپوں پر فروخت ہوتا ہے
پانی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا سکتا ہے کہ زمین کی طر ح دیگر سیاروں میں پانی کے اثارات کی موجود گی پر دنیا بھر کے سائنس دان اس سیارے پر زندگی کا وجود تلاش کرنے لگتے ہیں ، رنگ روڈ پر قائم خانہ بدوش بستی میں جہاں حکومتی سطح پر پانی کا کوئی بندوبست نہیں ہے وہاں چند افراد نے دور دراز علاقوں سے پلاسٹک گیلن اور چھوٹے کین میں پانی لا کر فروخت کرتے ہیں ، بڑا گیلن 25 روپے جبکہ چھو ٹا15 روپے میں فورخت کیا جاتا ہے جس سے خانہ بدوش روپوں کے عوض پانی خرید نے پر مجبور ہیں، بستی کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ وہ سالوں سے یہاں مقیم ہیں ، حکومت کی جانب سے چند ہیندپمپ لگانے سے سیکڑوں افراد کو پانی میسر ہو جا ئے گا